کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 538
سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے کافر رشتہ دار مکہ میں نہ ہوں ۔جو حالت کفر میں ہی قتل ہوئے ‘ یا اپنی موت مرگئے ۔ تو کیا پھر [ان کا کفر ] ان لوگوں کے اسلام لانے میں کسی رسوائی کا سبب ہوسکتا ہے؟ جو لوگ متاخر الاسلام ہیں جیسے حضرت عکرمہ بن ابو جہل ، صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ یہ بہترین مسلمانوں میں سے تھے ۔[1] ان دونوں کے والد بدر کے موقع پر قتل ہوگئے تھے۔ اورایسے ہی حارث بن ہشام[2] کا بھائی بھی بدر کے موقع پر قتل ہوا ۔ ایسی باتیں سامنے رکھ کر طعن و تشنیع کرنا حقیقت میں تمام اہل ایمان پر طعن و تشنیع ہے۔ [ان پر طعن و تشنیع کرناکسی طرح بھی روا نہیں ہے] کیا کسی کے لیے یہ جائز ہوسکتا ہے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر صرف اس وجہ سے طعن وتشنیع کرے کہ آپ کے چچا ابو لہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن تھے۔یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر طعن کرے کہ ان کا بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا ۔ یا ابو طالب کے کفر کی وجہ سے حضرت علی یا حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو طعن دلائے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ یہ طعن صرف وہی لوگ کر رہے ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ؟ رافضی مصنف کے پیش کردہ اشعار خود ہی اپنے من گھڑت ہونے کی شہادت دیتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے صحابی کی شان سے صادر شدہ نہیں ۔اس لیے کہ صحابہ کے ساتھ ان اشعار کی کوئی مناسبت ہی نہیں ۔ رافضی کا یہ کہنا کہ : فتح مکہ کا واقعہ ہجرت مدینہ طیبہ کے آٹھویں سال رمضان میں پیش آیا ۔ یہ درست ہے ۔ [حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاقبولِ اسلام]: [بارھواں اعتراض]:شیعہ کہتا ہے:’’ اس وقت تک معاویہ اپنے شرک پر قائم تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھاگ رہے تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو مباح الدم قراردیا تھا۔آپ بھاگ کر مکہ چلے گئے۔ جب کوئی جائے پناہ نہ ملی تو مجبوراً بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف پانچ ماہ قبل اپنے اسلام کا اظہار کیا۔‘‘
[1] سنن ابی داؤد، کتاب الخراج۔ باب ما جاء فی خبر مکۃ(ح:۳۰۲۱،۳۰۲۲)۔ [2] صحیح بخاری، کتاب بدء الوحی۔ باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۷)، صحیح مسلم کتاب الجہاد۔ باب کتاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الی ھرقل ملک الشام(ح:۱۷۷۳)۔ [3] حسد کے لفظ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی جانب اشارہ کیا ہے جسے ابن سعد نے ابوالسفر سعید بن یحمد ہمدانی ثوری المتوفی ۱۱۲ھ سے روایت کیا ہے کہ ابو سفیان نے جب مرالظہران کے مقام پر دیکھا کہ لوگ آپ کے پیچھے پیچھے آرہے ہیں اور ہر شخص آپ کے بہت قریب آنا چاہتا ہے تو آتش حسد سے جل اٹھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زور سے اس کے سینہ پر دے مارے اور کہا: ’’ تب اﷲ آپ کو رسوا کرے گا۔‘‘ ابو سفیان نے کہا: ’’میں توبہ کرتا ہوں اور اﷲ سے اپنے گناہ کی مغفرت چاہتا ہوں ۔ اﷲ کی قسم! میرے جی میں یہ خیال ضرور آیا تھا۔ البتہ میرے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔‘‘ ابو اسحاق السبیعی نے بھی یہ روایت ذکر کی ہے مگر یہ الفاظ زائد ہیں کہ ابو سفیان نے کہا ’’ مجھے اسی وقت یقین آیا کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں ۔‘‘ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ابوسفیان حضرت عباس کی معیت میں مشرف باسلام ہونے کے لیے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے۔ یہ چند لمحات ابوسفیان پر اس وقت گزرے جب وہ اپنا پرانا دین چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو رہے تھے، اس کو حسد کے لفظ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ابو سفیان جاہ وریاست کی گود میں پلے تھے ایسے وقت میں ان کا کفر و ایمان کے مابین تردّد و تذبذب حبّ سیادت و قیادت کی دلیل ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ابھی تک ان کی ملاقات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ہوئی تھی اور وہ کلام الٰہی سے بھی ناآشنا تھے۔ بنا بریں راہ ایمان پر مخلصانہ گامزن ہونے کے لیے ابوسفیان ایسے معجزہ کے محتاج تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابو سفیان بارگاہ ایزدی میں تائب ہوئے اور دین اسلام آپ میں رچ بس گیا۔