کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 537
’’ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو اسے امن دیا جائے اور جو مسجد میں داخل ہو وہ بھی امن کا مستحق ہے اور جو ہتھیار ڈال دے وہ بھی مامون ہے۔‘‘[1]
ابوسفیان دلائل نبوت سے بے خبر نہ تھے۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایام صلح میں اسلام لانے سے چند ماہ قبل خود ہرقل کی زبان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے براہین و دلائل سنے تھے۔[2]علاوہ ازیں امیہ بن ابی الصلت نے بھی [اس موقع سے ]استفادہ کیا تھا۔تاہم حسد[3] کا جذبہ اسے ایمان سے مانع رہا، یہاں تک کہ بحالت مجبوری اس نے اسلام قبول کیا۔ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائی یزید رضی اللہ عنہ کے بارے میں شیعہ مصنف نے جو کچھ ذکر کیا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔اس کے ذکر کردہ اشعار بھی جھوٹے ہیں ۔اس لیے کہ لوگ جانتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا؛ اور تمام بتوں کو ختم کردیا گیا ۔[ان خودساختہ اشعار میں جس بت عزی کا ذکر ہے] ‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو یہ بت توڑنے کے لیے بھیجا تھا۔یہ بت عرفات کے قریب ایک جگہ پر نسب تھا۔ فتح کے بعد مکہ میں نہ ہی کوئی عزیٰ باقی رہا اور نہ ہی کوئی عزیٰ کی پوجا ترک کرنے پر ملامت کرنے والا باقی رہا ۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اشعار کسی جھوٹے نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زبانی گھڑے ہوئے ہیں ۔ اور اس کی جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ اسے واقعات کا درست علم ہی نہیں ۔
ایسے ہی آپ کے نانا ابو امیہ عتبہ بن ربیعہ اور ان کے ماموں ولید بن عتبہ ‘ اورآپ کی والدہ کے چچا شیبہ بن ربیعہ اور اس کے بھائی حنظلہ کے متعلق جوکچھ ذکر کیا گیا ہے ؛ یہ معاملہ جمہور قریش اور ان لوگوں کے مابین مشترک ہے ۔ان میں
[1] کیا اور آپ کی خدمت میں چمڑے کا تحفہ بھیجا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے یہ ہدیہ خود طلب فرمایا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے سے پیشتر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تھا، ام حبیبہ کا نام رملہ تھا۔ یہ مسلمان ہو کر اپنے خاوند عبید اﷲ بن جحش رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ چلی گئی تھیں ۔ عبیداﷲ وہاں نصرانی ہو گیا اور اسی جگہ اس کی موت واقع ہوئی۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خواب دیکھا کہ کوئی شخص انھیں ’’ام المومنین‘‘ کہہ کر پکار رہا ہے۔ جونہی ان کی عدت گزری نجاشی شاہ حبشہ کی ایک لونڈی حاضر ہوئی اور کہا:’’ شاہ حبشہ نے پیغام بھیجا ہے کہ نکاح کے لیے آپ اپنا وکیل مقرر کرلیں ۔‘‘چنانچہ آپ نے خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے حکم سے نکاح کا خطبہ پڑھا۔ نجاشی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے چار صد دینار مہر ادا کیا۔ (مسند احمد (۶؍۴۲۷) مستدرک حاکم (۴؍۲۰،۲۱) من طریق الواقدی سنن ابی داؤد ۔ کتاب النکاح۔ باب الصداق (ح:۲۱۰۷) مختصرًا۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے نجاشی کی لونڈی کو چاندی کے دو کنگن ہدیہ کیے۔
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا مطالبہ کرنے میں نجاشی رحمہ اللہ کی جانب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کو قاصد بناکر بھیجا ۔ یہ وہی عمرو ہے جو کھجوروں کا ہدیہ لے کر ابوسفیان کے ہاں گیا تھا اور پھر ابوسفیان کا ہدیہ آپ کو پہنچایا۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ سے مدینہ پہنچیں ۔ابو سفیان رضی اللہ عنہ تاہنوز مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ جب ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آنے کی خبر پہنچی تو آپ کی مدح کرتے ہوئے کہا: یہ مرد مجھے رسوا نہیں کرے گا۔‘‘ (مستدرک حاکم(۴؍۲۲) طبقات ابن سعد(۸؍۹۹) و فی اسنادہ الواقدی متروک) ابوسفیان جب مشرف باسلام ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قریش کے مشہور بت ’’منات‘‘ کو منہدم کرنے کیلئے مامور فرمایا۔ چنانچہ آپ نے تعمیل ارشاد کر دی۔ غزوہ حنین و طائف کے موقع پر ابوسفیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تھے۔ غزوہ طائف میں ابوسفیان کی آنکھ میں تیر لگا۔شدید درد ہو رہاتھا۔ اسی اثناء میں سرور کائنات نے فرمایا۔ ’’اگر آپ چاہیں تو بارگاہ ایزدی میں آنکھ کی واپسی کے لیے دعا کروں اور آپ کو دوبارہ آنکھ عطا ہو، اور اگر آپ چاہیں تو اس کے عوض جنت خرید لیں ۔‘‘ ابوسفیان نے کہا میں جنت کو ترجیح دیتا ہوں ۔ یہ وعدہ سرکار دو عالم نے جہاد کے موقع پرفرمایا۔ جواکمل العبادات ہے، اس سے ابوسفیان کا جنتی ہونا واضح ہوتا ہے۔ خواہ اس کو ناپسند کرنے والا کتنا ہی ذلیل کیوں نہ ہو۔ یہ وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوسفیان اﷲ کی راہ میں مسلسل جہاد کرتے رہے۔ابن سعد بسند صحیح سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں ، وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ غزوۂ یرموک کے دن سب آوازیں خاموش ہو گئی تھیں صرف ایک آواز آرہی تھی:’’ یَا نَصْرَ اللّٰہِ اِقْتَرِبْ۔‘‘
سعید بن مسیب کے والد ان لوگوں میں سے تھے جو بیعت الشجرہ میں شامل تھے۔ یہ کہتے ہیں میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ پکارنے والا ابوسفیان تھا، جو اپنے بیٹے یزید کے جھنڈے تلے مصروف پیکار تھا۔(اسد الغابۃ(۵؍۲۱۲) یہ امر موجب حیرت و استعجاب ہے کہ کذب و دروغ کے خوگر روافض کے نزدیک ان مجاہدین ابرار کی شان میں گستاخی کرنا اور ان کے بارے میں غلط سلط روایات بیان کرنا گویا کوئی جرم ہی نہیں ۔ دوسری جانب اہل سنت کا یہ حال ہے کہ یہ سب بد گوئی سن کر اس لیے اَن سنی کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا شیرازہ منتشر نہ ہونے پائے۔ یہ اچھی شیرازہ بندی ہے کہ خلفائے ثلاثہ اور ان مجاہدین صحابہ کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے جنھوں نے اقصائے عالم میں دین حق کے جھنڈے گاڑے تھے اور ان کے سِیَر و سوانح کا حلیہ بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے اور ادھر اہل سنت ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ یاد رہے کہ اسلام کی شیرازہ بندی کثرت تعداد سے نہیں بلکہ اکابر اولیاء اﷲ مثلاً ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ان کے متبعین سے ہوتی ہے ۔ جب تک لوگ ان مجاہدین ابرار کی محبت سے سرشار رہے اور اپنے آپ کو ان کے اخلاق و عادات سے آراستہ کیے رکھا، دین حق ترقی پذیر رہا۔ دین کی تفریق دراصل یہ ہے کہ روافض کو اس بات کی کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ صحابہ کے محاسن کو معائب بنا کر پیش کریں اور نہایت مذموم انداز میں ان کی تصویر کھینچیں ۔