کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 536
عزو وقار کے خواہاں ہیں ۔‘‘یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1]
[1] ظہران چند مقامات کا نام ہے، اس سے مراد یہاں وہ وادی ہے جو مدینہ سے مکہ آتے ہوئے راستہ میں پڑتی ہے، اس وادی کے قریب ایک گاؤں مرّ نامی آباد تھا اس وادی کی مناسبت سے اسے مرّالظہران کہنے لگے۔ اسی وادی میں ابوسفیان رضی اللہ عنہ مشرف باسلام ہوئے حدیث میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے جس گھر کا ذکر کیا گیا ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں مکہ میں دولت عثمانیہ کے آخری دور میں ایک شفاخانہ’’مستشفیٰ القبان‘‘ نامی تعمیر کیا گیا تھا۔یادگار کے طور پر اس گھر کے ایک حصہ میں مسجد تعمیر کی گئی ہے ۔محی الدین خطیب رحمہ اللہ کہتے ہیں : میں نے بچشم خود خوبصورت عثمانی خط میں یہ الفاظ دیکھے:’’ مَنْ دَخَلَ دَارَ اَبِیْ سُفْیَانَ فَہُوَ اٰمِنٌ‘‘ گھر کے اندرمسجد کے قریب ایک حوض تھا جس میں پانی بہہ رہا تھا۔ شاید مکہ میں صرف وہی ایک حوض ہے جس میں ہمیشہ پانی بہتا رہتا ہے۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کو یہ عظیم خصوصیت اس لیے عطا ہوئی کہ مکہ کے لوگ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دیا کرتے تھے تو آپ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر میں پناہ گزیں ہوتے۔(دیکھیے :الاصابہ لابن حجر: ۲؍۱۷۹، بروایت طبقات ابن سعد)۔ بایں وجہ ابوسفیان وہ شخص تھا جو قرابت داری کی بنا پر آپ سے وابستہ تھا اور اس لیے محبت کیے جانے کا مستحق تھا ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی﴾ (الشوریٰ)
’’آپ فرمادیں : میں قرابت داری کی محبت رکھنے کے سوا تم سے کوئی اجر طلب نہیں کرتا۔‘‘
ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے حلقہ بگوش اسلام ہونے سے پہلے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے مابین قرابت دارانہ الفت و مودّت کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ کے ہاتھ ابوسفیان کو بہترین قسم کی کھجوریں ہدیہ کی تھیں ۔ ابوسفیان نے یہ ہدیہ قبول (