کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 534
’’ بہت قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ میں اورآپ کے دشمنوں میں محبت پیدا کر دے اللہ کو سب قدرتیں حاصل ہیں اور اللہ غفور رحیم ہے۔‘‘
بیشک اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ سے دشمنی رکھنے والے ابو سفیان‘ہند اور دوسرے لوگوں کے مابین محبت پیدا کردی۔اوروہ ان لوگوں کی توبہ پر ان کے گناہ جیسے شرک و غیرہ بخشنے والا مہربان ہے۔وہ مؤمنین پر بڑا رحیم ہے۔اور یہ سارے لوگ اس کے بعد اہل ایمان ہوگئے تھے ۔
[دسواں اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ جب مکہ فتح ہوا تو معاویہ رضی اللہ عنہ یمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مورد طعن بتانے میں مشغول تھے۔ جب ان کے والد ابوسفیان حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو عار دلانے کے لیے چند اشعار لکھے اور یہ بھی کہا کہ تم دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم اختیار کرکے صابی ہو گئے ہو۔فتح مکہ کا واقعہ ہجرت کے آٹھویں سال پیش آیا۔ اس وقت تک معاویہ اپنے شرک پر قائم تھے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھاگ رہے تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو مباح الدم قراردیا تھا۔آپ بھاگ کر مکہ چلے گئے۔ جب کوئی جائے پناہ نہ ملی تو مجبوراً بارگاہ نبوی میں حاضر ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف پانچ ماہ قبل اپنے اسلام کا اظہار کیا۔ اور معافی طلب کرنے کیلئے حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر گر پڑے۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے بارے میں سوال کیا ؛ توآنحضرت نے آپ کو معاف کردیا۔ پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے سفارش کی کہ انہیں شرف بخشا جائے ‘ اور کاتبین کی جماعت میں آپ کا بھی اضافہ کیا جائے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بات مان لی ‘ اور دیگر چودہ کاتبین وحی کے ساتھ آپ کا بھی اضافہ کر دیا۔ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ آپ کاتب وحی تھے ؛تو اس مختصر سی مدت میں آپ نے کتنا نصیب کمایا ہوگا؟ جواس کے بدلہ میں دوسروں کو چھوڑ کر آپ کو کاتب وحی کی صفت سے موصوف کیا جائے ؟ حالانکہ زمحشری ۔ جس کا شمار مشائخ حنفیہ میں ہوتا ہے ۔ اپنی کتاب ’’ ربیع الابرار ‘‘ میں لکھتے ہیں :انہوں نے چار آدمیوں کیساتھ نبوت کا دعوی کیا تھا۔جملہ کاتبین میں سے ایک عبداللہ بن سعد بن ابی سرح بھی تھا ‘جو مرتد ہوکر مشرکین سے جا ملا۔اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ﴾ [النحل۱۰۶]
’’ لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے تو ان لوگوں پر اللہ کا بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
’’ابھی یہاں ایک شخص آئے گا جس کی موت تارک سنت ہونے کی حالت میں ہوگی۔‘‘ اتنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ نمودار ہوئے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ خطبہ دینے کے لیے اٹھے؛ اسی دوران معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے یزید کا ہاتھ تھام کر باہر چل دیے تو آپ نے فرمایا:’’ اﷲ قیادت کرنے والے اور جس کی قیادت کی گئی ہے؛ دونوں پر
[1] صحیح بخاری:ح۱۰۲۹ ؛ ۸؍۱۳۱ ؛ کتاب الایمان و النذور ؛ باب کیف کانت یمین النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ مسلم ۳؍ ۱۳۳۹ ؛ کتاب الأقضیۃ ؛ باب قضیۃ ہند۔