کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 528
اور اگر ان سے لڑائی شروع ہو جائے؛ اور پھر وہ صلح کی طرف مائل ہو جائیں تو پھر بھی ان سے جنگ نہیں لڑی جائے گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یہی ہے:
﴿ فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ ﴾ (الحجرات)
’’ تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ پلٹ آئے تو دونوں کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف کرو، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
تو اس لڑائی کے بعد بھی حکم یہی ہے کہ اگر وہ صلح کی طرف پلٹ آئیں کہ ان کے مابین عدل ہو تو پھر ان کے مابین انصاف کیا جائے۔ فتنہ کی لڑائی میں یہ واقعہ نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جنگ شروع کرنے کا حکم نہیں دیا۔ لیکن یہ حکم دیا ہے کہ جب وہ آپس میں لڑیں ؛ اور ان میں سے ایک گروہ دوسرے گروہ پر زیادتی کرے ؛ تو پھر زیادتی کرنے والے سے لڑا جائے۔ اور یقیناً اس آیت میں پہلے اصلاح کا حکم ہے؛ اور پھر سب مل کر زیادتی کرنے والے سے لڑیں ۔ ان میں سے کسی ایک کو یہ حکم نہیں ۔ کبھی ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی گروہ شروع میں زیادتی کرنے والا ہو؛ لیکن جب اس نے زیادتی کی ؛ تو اس سے لڑائی کا حکم دیا گیا۔ تو درایں صورت اسے ان سے قتال کرنے والا شمار نہیں کیا جائے گا؛ بھلے ایسا عدم قدرت کی وجہ سے ہو یا کسی دوسری وجہ سے ۔ اور بسا اوقات شروع میں باغی گروہ سے قتال کرنے سے عاجز ہوتے ہیں ؛ یا پھر ایسی لڑائی نہیں کی جاسکتی جس میں انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف لوٹایا جائے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ جو کوئی بھی قتال پر قادر ہو ؛ وہ ایسے بھی قتال کرسکتا ہو کہ دوسرے کو اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے پر مجبور کردے۔ جب وہ اتنا لڑنے سے عاجز ہیں کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف پلٹا سکیں ؛ تو پھر وہ ان سے قتال کے لیے مامور بہ نہیں ہیں ۔ نہ ہی یہ حکم واجب ہے اور نہ ہی مستحب ۔ لیکن کبھی ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ گمان کرتا ہو کہ میں ایسا کرنے پر قادر ہے؛ مگر آخر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس پر قادر نہیں تھا۔ یہ وہ اجتہاد ہے جس پر مجتہد کواس کی اچھی نیت اور قصد ؛ اور مامور بہ کے بجا لانے کی بنا پر ثواب ملتا ہے ۔اگروہ غلطی بھی کر جائے تب بھی اس کے لیے ایک اجر ہوتا ہے۔ یہ وہ اجتہاد نہیں ہوتا جس میں دوہرا اجر ہوتا ہے ۔ بیشک ایسا اس وقت ہوتا ہے جب اجتہاد باطن میں بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: ’’ جب حاکم اجتہاد کرتا ہے؛ اور اس سے خطا ہوجاتی ہے؛ تو اس کے لیے ایک اجر ہے؛ اوراگروہ اجتہاد کرے اور حق کو پالے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے ۔‘‘[1]
یہ بھی اجتہاد میں سے ہے کہ ولی امر یا اس کے نائب کو دویا اس سے زیادہ امور میں سے ایک کا اختیار ہوتا ہے۔ ان