کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 526
اس میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی مذمت کا کوئی پہلو نہیں ؛ بلکہ آپ کی مدح و تعریف ہے۔ اور اگر آپ کو قتل کرنے والے حق پر ہوتے تو اس میں حضرت عمار کی کوئی مدح و تعریف کی بات نہ تھی۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا مطالبہ کرنے میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پر ان کی مدح و تعریف واجب ہوتی ہو۔ ایسے ہی جن لوگوں نے آپ کے قاتل کے بارے میں تاویل کی ؛ کہ اس سے مراد وہ جماعت ہوگی جس کے ساتھ ان کا قاتل ہو گا۔ اس تاویل میں کھلم کھلا خرابی پائی جاتی ہے۔اور ان پروہی لازم آتا ہے جو وہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر لازم کر رہے ہیں ۔وہ یہ کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے غزوات میں اپنے ساتھیوں جیسے حضرت حمزہ وغیرہ کو قتل کیا ہو۔ اوریہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ:فلاں نے فلاں کو قتل کیا ۔ کیونکہ انہوں نے ان کو ایسا حکم دیا جو ان کی موت کا سبب بنا۔ مگر یہ بات قرینہ پر مبنی ہوتی ہے؛ عند الاطلاق یہ بات نہیں کہی جاسکتی ۔ بلکہ عند الاطلاق قاتل وہی ہوگا جس نے قتل کیا ہے؛ نہ کہ حکم دینے والا ۔ پھر یہ بات اس سے کہی جاسکتی ہے جس نے غیر کو حکم دیا ہو۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو کسی ایک نے بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے اصحاب سے لڑنے کا نہیں کہا تھا۔ بلکہ آپ لوگوں سے بڑھ کر ان سے لڑنے کے حریص تھے۔ اور اس میں سب سے زیادہ رغبت رکھتے تھے۔ آپ کی یہ حرص کسی بھی دوسرے کی حرص سے بڑھ کر تھی۔ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر لوگوں کو اس جنگ کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عقائد اور مقالات نقل کرنے والے علماء میں سے کسی ایک نے بھی اس رائے کو اختیار نہیں کیا ۔بلکہ حدیث کے ماہر اہل علم کے اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں : ۱۔ ایک گروہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے؛ کیونکہ ان کے نزدیک یہ حدیث ایسی اسانید سے روایت کی گئی ہے جو ثابت نہیں ہیں ۔ لیکن اہل صحیح نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ امام بخاری نے بھی اسے حضرت ابو سعید سے روایت کیا ہے؛ جیسا کہ پہلے گزر چکا۔ امام مسلم نے حضرت حسن کی والدہ کی سند سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ابو سعید اور قتادہ اور دیگر حضرات کی اسانید سے روایت کی گئی ہے۔ ۲۔ ان میں سے کچھ حضرات کہتے ہیں : یہ اس بات کی دلیل حضرت امیر معاویہ ان کے ساتھی باغی تھے۔ اور یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو ان سے قتال کیا ؛ وہ اہل عدل کا اہل بغی سے قتال تھا۔ لیکن یہ باغی متاول تھے ۔ انہیں کافر یا فاسق نہیں کہا جاسکتا۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ صرف ان کے باغی ہونے میں کوئی ایسی چیز تھی جو ان سے قتال کو واجب کرتی تھی ؛ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر باغی سے قتال کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ باغیوں سے جنگ شروع کرنے کا حکم ہی نہیں دیا ۔ لیکن یہ ارشاد فرمایا ہے: ﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی
[1] سنن الترمذي ۳۳۳؍۵؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب عمار بن یاسر؛ عن ابی ہریرۃ۔ وصحح الألباني في سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۲۶۹؍۲ ؍ برقم ۷۱۰۔ وذکر اسنادہ ؛ وتکلم علی طریقہ و الفاظہ ۔ [2] ہذا جزء مِن حدِیث رواہ مسلِم فِی صحِیحِہِ عن عِیاضِ بنِ حِمار المجاشِعِیِ رضی اللّٰہ عنہ فِی:۴؍۲۱۹۷، ۲۱۹۹ِ ؛ کتابِ الجنۃِ وصِفۃِ نعِیمِہا وأہلِہا، بابِ الصِفاتِ التِی یعرف بِہا فِی الدنیا أہل الجنۃِ وأہل النارِ ونصہ فِیہِ: (( أن رسول اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؛ قال ذات یوم فِی خطبتِہِ:(( ألا ِإن ربِی أمرنِی أن أعلِمکم ما جہِلتم مِما علمنِی یومِی ہذا۔کل مال نحلتہ عبداً حلال وِإنِی خلقت عِبادِی حنفاء کلہم ....الحدِیث وفِیہِ....وأہل النارِ خمس: الضعِیف الذِی لا زبر لہ، الذِین ہم فِیکم تبعا ولا یبغون أہلا ولا مالا....الحدِیث۔وذکر مسلِم لہ طرِیقا آخر جاء فِیہِ: (( وہم فِیکم تبعا لا یبغون أہلا ولا مالا ))۔ ومعنی لا زبر لہ: أی لا عقل لہ یزبرہ ویمنعہ مِما لا ینبغِی۔