کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 524
امام بخاری نے اسے ایک دوسری سند سے بھی حضرت عکرمہ سے روایت کیا ہے۔لیکن بہت سارے نسخوں میں پوری حدیث کو ذکر نہیں کیا گیا ہے؛بلکہ ان میں اتنا ہی ہے:
’’ افسوس ! عمارتم انہیں جنت کی دعوت دو گے اور وہ تمہیں جہنم کی دعوت دے رہے ہوں گے۔‘‘
لیکن اس بارے میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں کہ حدیث میں وارد یہ الفاظ زیادہ ہیں ۔
امام ابو بکر البیہقی رحمہ اللہ اور دیگر حضرات نے کہا ہے: ’’ یہ روایت کئی حضرات نے خالد الحذاء سے روایت کی ہے؛ وہ عکرمہ سے وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں ۔ امام بہیقی رحمہ اللہ کے مطابق امام بخاری نے یہ زیادہ الفاظ ذکر نہیں کئے۔ اور اس کا عذر یہ پیش کیا ہے کہ یہ زیادہ الفاظ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنے۔ لیکن آپ سے آپ کے ایک ساتھی ابو قتادہ نے بیان کئے۔
جیسا کہ صحیح مسلم میں حضرت شعبہ کی ابو نضرہ سے روایت میں ہے؛ وہ ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ؛ آپ نے فرمایا؛ ’’ مجھے اس نے خبر دی جو مجھ سے بہتر ہیں ؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’ تمہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘
داؤدبن ابی ہند کی ابو نضرہ سے روایت ابوسعید خدری سے؛ اس میں ہے؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایک گروہ خروج کرے گا؛ انہیں وہ جماعت قتل کرے گی؛ جو اللہ کے نزدیک زیادہ حق پر ہوگی۔‘‘[1]
حضرت عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں اٹھا کر لا رہے تھے۔ میں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا؛ لیکن جب میں آیا تو میرے ساتھی کہہ رہے تھے؛ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار سے فرمایا:
’’اے ابن سمیہ ! افسوس ہے کہ تمہیں ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘[مسلم برقم ۷۰]
یہ حدیث امام مسلم روایت کی ہے۔سنن نسائی اوردیگر کتب میں ہے یہ حدیث ابن عون کی سند سے حسن بصری سے مروی ہے؛ وہ اپنی والدہ سے وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں ۔فرماتی ہیں ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘[مسلم برقم ۷۳]
یہ حدیث شعبہ نے خالد سے ؛ اس نے سعید بن ابی الحسین اور حسن سے روایت کی؛ وہ دونوں اپنی والدہ سے وہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں ۔
اس کی بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ غزوہ یوم خندق کے موقع پر ارشاد فرمایا۔‘‘
بہیقی نے اور دیگر محدثین نے اسے غلط کہا ہے؛ اور صحیح یہ ہے کہ آپ نے یہ جملہ تعمیر مسجد کے موقع پر ارشاد فرمایا۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کا احتمال ہے کہ آپ نے یہ جملہ دوبار ارشاد فرمایا ہو ۔ یہ حدیث اس کے علاوہ دیگر اسناد سے بھی روایت کی گئی ہے۔جن میں حضرت عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے عبداللہ کی روایات بھی ہیں ۔اور حضرت عثمان
[1] رواہ البخاری ۴؍۲۱؛ مسلم ۴؍۲۲۳۵۔ مسند احمد(۴؍۱۹۹)، مستدرک حاکم(۴؍۳۸۶ )۔
[2] صحیح البخاری ۴؍ ۲۱؛ کتاب الجہاد ؛ باب مسح الغبار عن الرأس في سبیل اللّٰہ۔