کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 510
ضرورت کے تحت ایک وقت میں دو خلفاء کی بیعت کی جاسکتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ برحق ہونے کے بارے میں تنازع کرنے والوں کی حجتوں اور دلائل کا توڑ کرنا رافضیوں کے بس کاکام نہیں ۔ جو لوگ آپ کو امام حق تسلیم کرتے ہیں ؛ ان کا وہی عقیدہ ومسلک ہے جو اہل سنت والجماعت کا ہے۔ اہل سنت کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ امام حق کے لیے معصوم ہونا شرط نہیں ۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر اس شخص سے لڑا جائے جو اس کی اطاعت کے دائرہ سے خارج ہو۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ معصیت میں بھی اس کی اطاعت کی جائے۔ اس حالت میں اس کی اطاعت کا چھوڑ دینا افضل ہے۔ اسی بنا پر صحابہ کی ایک جماعت جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہیں دیا تھا وہ یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ قتال کا ترک کرناقتال میں ملوث ہونے سے بہتر ہے ۔اور بعض کا خیال تھا کہ جنگ کرنا گناہ کا کام ہے ‘ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینا ان پر واجب نہیں ۔
جو لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہوئے تھے وہ تین حال سے خالی نہیں :
۱۔ وہ عاصی ہوں گے ۲۔خطا کار مجتہد ہوں گے۔
۳۔ یا اپنے اجتہاد میں صحت و صواب کے حامل ہوں گے۔
بہر کیف کوئی صورت بھی ہو اس سے ان کے ایمان میں اور جنتی ہونے میں قدح وارد نہیں ہوتی۔نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَاِِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا فَاِِنْ بَغَتْ اِِحْدَاہُمَا عَلَی الْاُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ اِِلٰی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِِنْ فَائَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ o اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ﴾ (الحجرات:۹۔۱۰)
’’ اگر مومنوں کی دو جماعتیں لڑ پڑیں توان میں صلح کرادو۔ اگر ایک فریق دوسرے پر ظلم و تعدی کا مرتکب ہو تو اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ حکم الٰہی کی جانب واپس آجائے۔ اندریں صورت بہ تقاضائے عدل ان میں صلح کرادو کیوں کہ اﷲتعالیٰ باانصاف لوگوں کوچاہتا ہے۔ مومن باہم بھائی بھائی ہیں ، لہٰذا بھائیوں کے درمیان صلح کرادیجیے]]۔
اس آیت میں متحارب فریقین کو ﴿اِخْوَۃٌ﴾ ’’بھائی ‘‘فرمایا گیا ہے؛ اور انہیں ایمان سے موصوف بتایاہے ؛ باوجود کہ ان کے درمیان جنگ و قتال پیش آئے۔اور آپس میں ایک دوسرے پر سرکشی کے مرتکب ہوئے۔
پس جو کوئی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرے ‘ اگر اسے باغی شمار کیا جائے تو پھر بھی اسے خارج از ایمان قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی اس وجہ سے اس کو جہنمی کہا جاسکتا ہے۔نہ ہی اس کے جنتی ہونے میں کوئی چیز مانع ہوسکتی ہے۔اس لیے کہ جب بغاوت کسی تاویل کی بنا پر ہو تو ایسا باغی مجتہد ہوتا ہے۔اسی لیے اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ :ان دونوں
[1] مذکورۃ الصدر بیان سے عیاں ہے کہ ذکر کردہ حدیث نبوی اعلام نبوت میں سے ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ صفین میں لڑنے والے دونوں فریق زمرۂ مومنین میں شامل تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بلاشبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ تاہم دونوں صحابہ رسول اور دین اسلام کے رکن رکین تھے، اس دور میں جس قدر فتنے بپا ہوئے، اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے اس آگ کو ہوا دی۔ آنے والے ادوار میں تا قیام قیامت جو لوگ ان کے فعل کو سراہتے ہیں وہ ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ہی وہ باغی ہیں جو بعد میں قتل ہونے والے سب مسلمانوں کے ذمہ دار ہیں ۔ اسی طرح بعد ازاں جو فتنے بپا ہوئے اس کا اصل سرچشمہ وہی فتنہ پرور لوگ ہیں ۔