کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 509
جو جماعت ظلم و تعدی کی مرتکب ہو اس سے لڑا جائے۔ان لوگوں سے ابتداء میں ہی؛ ان کی طرف سے جنگ شروع کرنے سے پہلے لڑا گیاہے۔‘‘ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ او رامام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اگر مانعین زکوٰۃ کہیں کہ : ہم زکوٰۃ اپنے ہاتھوں سے ادا کریں گے ‘ ہم حاکم وقت کو زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔تو امام [حاکم] کے لیے ان سے جنگ کرنا جائز نہیں ۔ اسی بنا پر امام احمد اور امام مالک رحمہم اللہ اسے’’ جنگ فتنہ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ باغیوں سے اس وقت لڑنا جائز ہے جب وہ حاکم وقت کے خلاف نبرد آزما ہوں ۔‘‘ مگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جنگ کا آغاز نہیں کیا تھا۔بلکہ خوارج نے جنگ کا آغاز کیا۔جب کہ خوارج سے جنگ کرنا نص اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دفاع کرنے والا کہے کہ : آپ اس بارے میں مجتہد تھے۔ تو فریق مخالف بھی کہہ سکتا ہے کہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس مسئلہ میں مجتہد تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ : آپ مجتہداور حق پر تھے ۔ تو اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ : معاویہ بھی مجتہد اور حق پر تھے۔لوگوں میں ایسے افراد موجود ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو مجتہد برحق کہتے ہیں ۔اسکی بنیاد یہ ہے کہ ہر اجتہاد کرنے والا حق پر ہوتا ہے۔یہ امام اشعری رحمہ اللہ کا قول ہے۔ ان میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے مگر خطاء پر تھے۔مجتہد کی خطاء قابل مغفرت ہے۔ ایک گروہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے : ان دونوں میں سے ایک گروہ حق پر تھا ‘ مگر یہ پتہ نہیں کہ کون سا گروہ حق پر تھا۔ یہ اقوال امام احمد کے شاگرد ابو عبد اللہ بن حامد نے ذکر کئے ہیں ۔ لیکن خود امام صاحب اور ان کے امثال ائمہ سے منصوص یہ ہے کہ اس جنگ سے لڑائی کاترک کرنا بہتر تھا۔ یہ لڑائی فتنہ کی جنگ تھی۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اس عرصہ میں اسلحہ فروخت کرنے سے منع کرتے تھے۔ اور فرمایا کرتے :’’ فتنہ میں اسلحہ نہیں بیچا جاسکتا ۔‘‘یہ قول حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ؛ محمد بن مسلمہ ؛ ابن عمر ؛ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کا ہے۔اور اکثر ائمہ فقہ و حدیث نے اسی قول کو اختیار کیا ہے۔اورکرامیہ کہتے ہیں : بلکہ دونوں حضرات امام برحق تھے اور [1]
[1] صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب التعاون فی بنا المسجد، (حدیث:۴۴۷،۲۸۱۲) ہم کہتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے ۔یہ الفاظ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ارشاد فرمائے۔ باقی صحابہ ایک ایک اینٹ لارہے تھے اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دو دو، یہ دیکھ کر آپ نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے یہ روایت ابو سعید خدری نے عکرمہ مولیٰ ابن عباس اور علی بن عبداﷲ بن عباس کو سنائی رضی اللہ عنہم ۔ [2] محب الدین خطیب ’’ العواصم من القواصم‘‘ (ص:۱۷۰) میں حاشیہ پر لکھتے ہیں : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ جنگ صفین میں آپ کی حیثیت ایک باغی کی نہ تھی کیونکہ آپ نے اس کا آغاز نہیں کیا تھا۔ بخلاف ازیں معاویہ رضی اللہ عنہ لڑائی کے لیے اس وقت نکلے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ سے نکل کر شام پر حملہ کرنے کے لیے نخیلہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمار رضی اللہ عنہ مارے گئے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ عمار رضی اللہ عنہ کے قتل کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو ان کو یہاں لائے۔‘‘ خطیب فرماتے ہیں :’’ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں جو مسلمان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد مارے گئے، ان کے قتل کے ذمہ دار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل ہیں ۔ اس لیے کہ انھوں نے فتنہ کے دروازوں کو کھولا اورلمبے عرصہ تک اس آگ کو ہوا دیتے رہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے مابین جذبات حقد و عناد کے بھڑکانے کا موجب ہوئے۔ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا سانحہ خون فشاں پیش نہ آتا تو جنگ جمل و صفین و قوع پذیر نہ ہوتے۔ جس طرح یہ فتنہ پرداز احمق لوگ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے مرتکب ہوئے؛ اسی طرح اس واقعہ کے بعد تہ تیغ ہونے والے مسلمانوں کے قاتل بھی یہی لوگ ہیں ۔ مقتولین میں نہ صرف حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بلکہ ان سے افضل لوگ بھی شامل تھے، مثلاً طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما ، اس فتنہ پردازی کا انجام یہ ہوا کہ ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے دم لیا۔ حالانکہ یہ آپ کے لشکر میں شامل تھے۔ (