کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 505
٭ اس کے جواب میں وہ کہہ سکتے ہیں کہ:یہ تواترصحابہ و تابعین ؛خلفاء ثلاثہ ؛ خلفاء بنو امیہ؛جیسے معاویہ ؛ یزیداور عبدالملک رحمہم اللہ وغیرہ سے بھی ثابت ہے۔جب کہ تم ان کے ایمان پر زبان طعن دراز کرتے ہو۔ہمارا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں کے ایمان پر قدح کرنا تمہارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان پرقدح کرنے کے برابر نہیں ہوسکتا۔ جن کی شان میں تم قدح کرتے ہو‘ وہ ان سے بڑھ کر اور زیادہ عظمت والے ہیں جن کی شان میں ہم قدح کرتے ہیں۔ اگر شیعہ ظواہر قرآنیہ سے احتجاج کریں کہ قرآن میں ان کی مدح وتوصیف بیان ہوئی ہے ۔تو وہ جواب میں کہیں گے: قرآنی آیات عام ہیں یہ حضرت ابوبکر و عمروعثمان اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوایسے ہی شامل ہیں جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو۔ بلکہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر ان آیات کے موجب مدح و ثناء کے مستحق ہیں ۔ اگر روافض پوری جماعت کو اس فضیلت سے مستثنیٰ کریں گے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان سے الگ کردینابہت آسان ہے۔[حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی شان میں بھی احادیث وارد ہیں ۔، لہٰذا ان کو بھی قبول کرنا چاہئے اور اگر شیعہ صحابہ کو مطعون کریں گے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس سے بچ نہیں سکتے] اگر شیعہ صحابہ کے بارے میں وارد شدہ فضائل و مناقب سے احتجاج کریں تو یہ فضائل جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے روایت کیے ہیں ‘انہی صحابہ نے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل بھی روایت کیے ہیں ۔ اگر یہ راوی [تمہارے نزدیک ] عادل ہیں تو تمام روایات کو ماننا پڑے گا؛ اور اگر کہو کہ فاسق ہیں تو پھر جب فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کے لیے تحقیق کرنا پڑتی ہے [تا کہ حق بات واضح ہوجائے]۔کسی انسان کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ گواہوں کے بارے میں یوں کہے : ’’ اگریہ میرے حق میں گواہی دیں تو عادل ہوں گے۔ اور اگر میرے خلاف گواہی دیں تو فاسق و فاجر ہوں گے ۔‘‘ یا یوں کہے کہ : ’’ اگر ان لوگوں کی مدح میں گواہی دیں جن سے میں محبت کرتا ہوں ؛ تو پھر عادل ہوں گے۔ اور اگر ان لوگوں کی مدح میں گواہی دیں جن سے میں بغض رکھتا ہوں ‘ تو پھر فاسق ہوں گے۔‘‘ رہا امامت ِحضرت علی رضی اللہ عنہ کا مسئلہ ؛ تو یہ لوگ اوردیگر فرقے [خوارج ونواصب] آپ سے اس بارے میں تنازع کرتے ہیں ۔اگر تم اپنے دعوی کے مطابق ان کے منصوص ہونے کی دلیل پیش کرتے ہو؛ تو وہ اس کے مقابلہ میں ایسی ہی دلیل پیش کریں گے؛جیسے ان کا دعوی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں ہے ‘ یا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں [ جیسا کہ مروانیہ کا عقیدہ ہے]۔حدیث و آثار کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان لوگوں کا دعوی زیادہ قابل قبو ل ہے۔ ایسے ہی ان حضرات کی خلافت کے برحق ہونے پرایسے دلائل بھی پیش کیے جاسکتے ہیں جن کو سمجھنے کیلئے علم حدیث کا ہونا ضروری نہیں ۔ اگر شیعہ اس بات سے احتجاج کریں کہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی تھی۔
[1] البدایۃ والنھایۃ(۸؍۱۳۳۔۱۳۴) بحوالہ عبد الرزاق۔