کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 503
تھے۔ تاہم اسکے باوجود انھوں نے جنگ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ شامل ہیں جنھوں نے سراسر ظلم کا ارتکاب کیا ہے۔اور وہ اب ان سے اس سلوک کا بدلہ لینا چاہتے تھے جو انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا ہے۔ لڑائی کا آغاز کرنے والے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی تھے؛ اور حملہ آور سے لڑنا روا ہے۔یہ لوگ اس وقت تک نہ لڑتے تھے جب تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر سے لوگ ان پر حملہ نہ کردیتے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سرگرم معاون اشتر نخعی نے کہا تھا:’’ لوگ ہمارے مخالفین کی مدد کرتے ہیں کیوں کہ ہم نے لڑائی کا آغاز کیا ہے۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے لشکر میں موجود قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی سرکوبی سے قاصر تھے۔ علاوہ ازیں آپ کے امراء و اعوان آپ کی اطاعت نہیں کرتے تھے، اس کے برعکس حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے رفقاء آپ کے مطیع فرمان تھے۔آپ کا خیال تھا کہ جنگ سے مسئلہ حل ہوجائے گا؛ مگرنتیجہ آپ کی سوچ کے برعکس نکلا۔ [ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ] حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایسے لوگ بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ظلم کا الزام لگاتے تھے ؛ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس چیز سے بالکل بری تھے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سے طالبین حق یہ بھی کہتے تھے : ’’ ہم صرف اس آدمی کی ہی بیعت کرسکتے ہیں جو ہمارے ساتھ عدل و انصاف کرے ؛ اور ہم پر ظلم نہ کرے ۔‘‘
اگر ہم علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کریں گے تو ہم پر ان کا لشکر ایسے ہی ظلم کریگا؛ جیسے انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ظلم کیا ۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یاتو ہمارے ساتھ عدل و انصاف کرنے سے عاجز آگئے ہیں ؛یا پھر وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ تو پھر ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ایسے انسان کی بیعت کریں جو ہمارے ساتھ عدل و انصاف کرنے سے عاجز آگیا ہو یا پھر اس نے عدل و انصاف کرنا ہی ترک کردیا ہو۔
ائمہ اہل سنت والجماعت جانتے ہیں کہ یہ قتال نہ ہی مامور بہ تھا‘ نہ ہی واجب تھااورنہ ہی مستحب ۔ لیکن اس انسان کا عذر مقبول ہے جس نے اجتہاد کیا اور غلطی کا شکار ہوگیا۔
[تیسرااعتراض]: شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے:’’ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تألیف قلب والوں میں سے تھے ۔‘‘
[جواب]:درست بات ہے؛فتح مکہ پر بہت سارے آزاد کردہ لوگ تالیف قلب والوں میں سے تھے ۔ جیسے حارث بن ہشام ؛ عکرمہ بن ابو جہل؛ سہیل بن عمرو؛ صفوان بن امیہ ؛ حکیم بن حزام؛یہ لوگ بہترین مسلمانوں میں سے تھے۔ تالیف قلب والوں کی اکثر تعداد بعد میں بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے۔ ایسا ہوتا تھا کہ صبح کے وقت کوئی انسان دنیا کی لالچ میں مسلمان ہوتا ؛ مگر شام ہونے تک اس کی حالت یہ ہوتی کہ اسلام اس کے لیے روئے زمین کی ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہوگیا ہوتا ۔
[کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ باغی تھے؟]:
[چوتھااعتراض]:شیعہ مضمون نگار لکھتا ہے:’’معاویہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف صف آراء ہوئے، حالانکہ
[1] سیرۃ ابن ہشام(۵۴۳۔۵۴۵)۔