کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 502
یہ سب لوگ خالص الاسلام تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو دل کی سچائی سے اسلام لائے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی یزید رضی اللہ عنہ کے بعد ان کو والی ٔ شام مقرر کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ طرف داری کرنے والے نہ تھے اور نہ انھیں کسی کی ملامت کی پرواہ تھی۔یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما بہترین مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ کا شمار ان جرنیلوں میں ہوتا ہے جنہیں حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے شام فتح کرنے کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ ان جرنیلوں میں یزید بن ابو سفیان ‘شرحبیل بن حسنہ ؛ عمرو ابن العاص ؛ابو عبیدہ بن جراح اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم ہیں ۔ جب یزید بن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی جگہ ان کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس علاقہ پر والی مقرر فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں ہوتی تھی۔ اور نہ ہی آپ ولایت سے محبت رکھنے والے تھے۔ مزید برآں معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے ساتھ آپ کے دوستانہ مراسم بھی نہ تھے۔ بلکہ اسلام سے پہلے ابو سفیان کے بڑے دشمنوں میں سے ایک تھے۔ یہاں تک کہ جب فتح مکہ کے موقع پر جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ ، ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو بارگاہ نبوی میں لائے تھے تو آپ اسے قتل کرنا چاہتے تھے۔[1] اسی بنا پر آپ کے اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ تلخ گفتگو بھی ہوئی۔کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ بغض رکھتے تھے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کرنا کسی دنیاوی لالچ کی وجہ سے نہ تھا۔ اگر آپ امیربنائے جانے کے مستحق نہ ہوتے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کبھی بھی آپ کو امیر نہ بناتے ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ دمشق اور دیگر بلاد شام میں بیس سال تک امیر اور بیس سال تک خلیفہ رہے۔ آپ کی رعایا آپ کے حسن سلوک، تالیف قلب اور خوبیٔ انتظام و انصرام کی مداح تھی اور آپ پر جان چھڑکتی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنگ صفین میں انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دیا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نظائر و امثال سے افضل و اولیٰ بالحق تھے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فوجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے معترف تھے۔اور سبھی اس بات کے معترف تھے کے خلافت کے حق دار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔آپ کی فضیلت کا انکار صرف اسی کو ہوسکتا ہے جو حق کے سامنے سرکش اور خواہشات نفس کے سامنے اندھا ہو۔
ادھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی مسئلہ تحکیم سے پہلے کبھی بھی اپنی ذات کے لیے خلافت کی خواہش کا اظہار نہیں کیا ۔ اور نہ ہی آپ کو امیر المؤمنین کہا جاتا تھا۔ آپ نے تحکیم کے بعد خلافت کی طلب کی۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں کئی ایک لوگ ایسے تھے جو یہ سوال اٹھاتے تھے : ہم علی رضی اللہ عنہ سے قتال کیوں کریں ؟ جب کہ آپ کو نہ ہی سابقت اسلام کا شرف حاصل ہے ‘ اور نہ ہی کوئی دیگر ایسی فضیلت ؛ او رنہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف [جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہے] اورحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کی نسبت خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس چیز کا اعتراف کیا کرتے
[1] سہیل بن عمرو خطیب قریش تھا اور بنی عامر بن لوی ّ کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش کا سفیر بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، فتح مکہ کے دن جب آپ نے اہل مکہ کو خطاب کرکے کہا تھا :’’ تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟‘‘ تو وہ سہیل ہی تھا جس نے یہ جواب دیا : ’’ہم بھلائی کی توقع رکھتے ہیں ، کیوں کہ آپ اچھے بھائی اور اچھے بھتیجے ہیں ۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: میں وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کہی تھی، آج تم پر بھی کچھ عتاب نہیں ۔‘‘ (ابن زنجویہ فی الاموال، الاصابۃ(۲؍۹۵) طبقات ابن سعد(۷؍۱۲۶) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تالیف قلب کے طور پر سہیل رضی اللہ عنہ کو سو اونٹ عطا کیے۔ (مستدرک حاکم(۳؍۲۸۱)، وانظر الاصابۃ(۲؍۹۵)، مسند احمد(۳؍۲۴۶)
خلافت فاروقی میں مہاجرین و انصار حضرت عمر کے دروازہ پر کھڑے تھے اور آپ انھیں مقام و مرتبہ کے مطابق باری باری اندر بلاتے جاتے تھے۔ اس موقع پر فتح مکہ کے دن مسلمان ہونے والے چند صحابہ بھی موجود تھے، وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، سہیل بن عمرو نے یہ دیکھ کر کہا تم خود قصور وار ہو۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت اسلام دی، تو انھوں نے جلد ی اس دعوت پر لبیک کہا اور تم نے دیر لگا دی اب اسی تاخیر کا خمیازہ بھگت رہے ہو، جب جنت کے دروازوں کی جانب دعوت دی جائے گی تو اس وقت کیا کیفیت ہو گی ۔‘‘ یہ کہہ کر سہیل جہاد کے لیے روانہ ہوئے اور کہا اﷲ کی قسم! میں نے جتنی لڑائیاں کفار کے ساتھ ہو کرلڑی ہیں اب اسی قدر مسلمانوں کی نصرت و حمایت کے لیے لڑوں گا، اور جتنا مال میں نے کفر کی حمایت میں صرف کیا تھا اتنا ہی مسلمانوں پر خرچ کروں گا۔‘‘(مستدرک حاکم(۳؍۲۸۱)، معجم کبیر طبرانی(۶۰۳۸)، و فی اسنادہ انقطاع)
امام شافعی رحمہ اللہ سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرماتے ہیں : جب سے اسلام لائے اسی وقت سے خالص الاسلام تھے۔جن لوگوں کو شیعہ اور انکے اتباع طنزاً ’’طلقاء‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ان کے بارے میں انھیں قطعی طور پر معلوم ہے کہ وہ اولیاء اللہ و اصحاب رسول میں سے تھے، ان میں بعض لوگ سہیل بن عمرو سے بھی افضل اور جہاد میں پیش پیش تھے۔ ان کے سرخیل حضرت معاویہ اور ان کے بھائی تھے، جن کے اسلام پر بڑے احسانات ہیں ۔ حضرت معاویہ کی چھوٹی سے چھوٹی فضیلت یہ ہے کہ آپ اوّلین اسلامی بحری بیڑے کے بانی اور پہلے شخص تھے جس نے سمندر میں بحری جنگ کا آغاز کیا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام قباء میں جو خواب دیکھا تھا اس میں آپ نے اس پیشین گوئی کا اظہار فرمایا۔ (صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب من زار قوما فقال عندھم، (حدیث: ۶۲۸۲)، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الغزو فی البحر (حدیث: ۱۹۱۲)۔