کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 495
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سواری پر پیچھے بیٹھنے والے دوسرے لوگ بھی تھے۔[ مگر فضل بن عباس رضی اللہ عنہما اس میں زیادہ مشہور ہیں ]
جولوگ ایسا کلام کرتے ہیں ‘ ان کامقصد یہ نہیں ہوتا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خصوصیات بیان کریں ؛ بلکہ وہ آپ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق بیان کرنا چاہتے ہیں [کیونکہ رافضی اس کے منکر ہیں ]۔جس طرح آپ کے باقی فضائل بیان کیے جاتے ہیں ‘ ان سے مقصود آپ کی خصوصیات بیان کرنا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ کل میں جھنڈاایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا ‘اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ [البخاری ۵؍۱۸؛ مسلم ۳؍۱۸۷۱]
نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ مجھ سے محبت صرف وہی انسان رکھے گا جو مؤمن ہوگا اور مجھ سے بغض وہی رکھے گا جو منافق ہوگا۔‘‘[تقدم تخریجہ]
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہو جو ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔بس اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔‘‘[البخاری ۵؍۱۹؛ مسلم ۳؍۱۸۷۱]
یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیات نہیں ہیں ‘ بلکہ آپ کے فضائل و مناقب ہیں جن کی وجہ سے آپ کی فضیلت پہچانی جاتی ہے۔ یہ روایات اہل سنت کے ہاں مشہور ہیں تاکہ ان سے ان لوگوں پر رد کریں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ پر قدح کرتے ہیں اور آپ کو ظالم اورکافر کہتے ہیں جیسے خوارج اورنواصب اور بعض دیگر لوگ۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میسر آئی ہے ‘ اورآپ کے ساتھ خانگی تعلق بھی ہے ۔ جب روافض نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تکفیر اور ان پر لعنت بھیجنے کی اجازت دے دی تو بعض اہل سنت نے آپ کو ’’ خال المومنین‘‘ کے لقب سے ملقب کیا۔تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کا تعلق لوگوں کو یاد دلائیں ۔اور اس طرح سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے حقوق کا ان کے درجات کے حساب سے خیال رکھا جائے۔
اگر اس قدر کوئی انسان اجتہاد کرے اور خطاء کا ارتکاب کرجائے ؛ تو وہ یقیناً اس انسان سے بہت بہتر ہوگا جو ان کے ساتھ بغض کرنے میں اجتہاد کرے اور غلطی کا مرتکب ہو۔ اس لیے کہ لوگوں کے ساتھ احسان کرنا اورمعاف کردینا برائی کرنے اور بدلہ لینے سے بہتر ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے :
’’ شبہات کی وجہ سے حدود کو ختم کرو۔‘‘[ضعیف الجامع الصغیر ۱؍۱۱۷؛ للألباني۔]
ایسے ہی وہ مجہول جو فقیر ہونے کا دعوی کرے ‘ اسے صدقہ دیا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آدمیوں کو دیا تھاجنہوں نے آپ سے سوال کیاتھا۔[ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نگاہ اٹھا کر ان کو دیکھا پھر نظر جھکالی]؛
[1] یہ جاہل اہل سنت کا قول ہے اور وہ شیعہ کو چڑانے کے لیے اس طرح کہتے ہیں ورنہ دونوں میں کوئی فرق نہیں ]۔چونکہ شیعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت کے منکر تھے اور اس میں وہ حد درجہ تجاوز کرگئے تھے اس کا رد عمل یہ ہوا کہ لوگوں نے حضرت معاویہ کو اس لقب ( خال المومنین) سے نوازا۔ قاضی ابوبکر بن العربی المتوفی(۴۶۸....۵۴۳) لکھتے ہیں کہ انھوں نے عباسی خلافت کے زمانہ یعنی پانچویں صدی کے نصف ثانی اور چھٹی صدی کے نصف اول میں بغداد کی مساجد کے دروازوں پر یہ الفاظ لکھے ہوئے بچشم خود مشاہدہ کیے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب لوگوں سے بہتر ابوبکر ہیں ، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی اور پھر مومنوں کے ماموں معاویہ رضی اللہ عنہم ۔(العواصم من القواصم ،ص:۲۱۳)