کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 484
میں اسے اپنے ہم راہ لے جائے....‘‘ حالانکہ یہ دونوں حضرات آپ کو ایک ملکہ کی طرح لے کر گئے تھے جس کی بات مانی جاتی ہے اور حکم پر تعمیل کی جاتی ہے۔ان کو گھر سے نکالنے میں کسی برائی کا گمان تک نہیں کیا جاسکتا۔ تو ایک ناصبی (حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مخالف) یہ کہنے کا مجاز ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ د کھائیں گے جب کہ وہ آپ کی بیوی(سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ) کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور آپ کو اس حد تک تکلیف پہنچائی کہ ان کے اعوان و انصار نے اس اونٹ کی کونچیں کاٹ ڈالیں جس پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سوار تھیں ۔ نتیجتاً سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا محمل سے گر پڑیں ۔ اور ان کے اعداء ایک قیدی عورت کی طرح آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تذلیل ہے ۔جس میں کسی انسان کی اس کے اہل خانہ میں ہتک عزت ہے ؛ اور پھر انہیں قیدی بنانے کی کوشش کرنا ‘ اور اجنبی لوگوں کو ان پر مسلط کرنا‘ انہیں ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرنا فقط گھر سے نکالنے سے زیادہ گناہ کا کام ہے ۔ جب کہ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما مدینہ سے ایک باعزت ملکہ کی طرح بحفاظت تمام آپ کو لائے، کسی کو آپ کے پاس پھٹکنے کی اجازت نہ تھی۔نہ ہی کوئی آپ کے پردہ کی ہتک کرسکتا تھا او رنہ ہی کوئی آپ کی چادر کی طرف دیکھ سکتا تھا۔ نیز طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما اور دوسرے اجنبی آپ کو نہ اٹھاتے تھے۔ فوج میں بہت سے لوگ آپ کے محرم تھے۔ مثلاً عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ آپ کے بھانجے تھے اور ان کی خلوت آپ کے ساتھ اور آپ کو چھونا کتاب و سنت اور اجماع کی رو سے جائز ہے۔ اسی طرح شرعاً محرم کے ساتھ سفر کرنے کی بھی اجازت ہے۔جہاں تک اس لشکر کا تعلق ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے برخلاف برسر پیکار تھا ؛اگر اس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بھائی محمد بن ابی بکر....جس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جانب دست تعدّی دراز کیا تھا....نہ ہوتا تو اجنبی لوگ آپ پر زیادتی کرنے سے نہ چوکتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے دست درازی کرنے والے کے بارے میں دریافت فرمایا:’’ یہ کس کا ہاتھ ہے اﷲ اسے آگ میں جلائے؟‘‘ محمد بن ابی بکر نے کہا:’’ ہمشیرہ! کیا آخرت سے پہلے دنیا میں جلائے؟‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ ہاں دنیا میں آخرت سے پہلے‘‘ چنانچہ محمد بن ابوبکر کو مصر میں جلا دیا گیا تھا۔ اگر ناصبی نقاد شیعہ کو مخاطب کرکے کہے: جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ قتل کیے گئے تھے توتمہارے قول کے مطابق آل حسین رضی اللہ عنہ کو قیدی بنا لیاگیا تھا۔ حالانکہ ان کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو سلوک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روا رکھا گیا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو واپس مدینہ بھیج دیا گیا اور حسب ضرورت نان و نفقہ بھی دیا گیا تھا۔ اسی طرح قابوپا کر آل حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے گھروں میں پہنچا دیا گیا اور نان و نفقہ بھی دیا گیا تھا۔ اگر اس کا نام قیدی بنانا ہے اور یہ حرمت نبوی کے منافی ہے تو بے شک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی قیدی بنایا گیا اور حرمت رسول کو پیش خاطر نہیں رکھا گیا تھا۔‘‘ شیعہ اہل سنت پر زبان طعن دراز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب ایک شامی نے فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ کو قیدی بنانا چاہا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے روکتے ہوئے کہا:’’ اﷲ کی قسم! تم لوگ اسی صورت میں ایسا کر سکتے ہیں جب کہ تم اپنا دین چھوڑ کر پورے کافر ہو جاؤ۔‘‘
[1] البخاری ۵؍ ۵۱ ؛ کتاب مناقب الأنصار ؛ باب قصۃ ابي طالب ؛ صحیح مسلم:۱؍ ۱۹۵ ؛ ح۵۱۱ ؛ کتاب الإیمان ؛ باب شفاعۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لابی طالب۔ [2] صحیح مسلم:ح۵۱۳؛ البخاری ۵؍۵۱ : کتاب مناقب الأنصار ؛ باب قصۃ ابي طالب ؛ صحیح مسلم:۱؍ ۱۹۵ ؛ ح۵۱۱ ؛ کتاب الإیمان ؛ باب شفاعۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لابی طالب؛ مسند ۳؍۹۔ [3] البخاری ۴؍ ۱۴۰ ؛ کتاب الانبیاء ؛ باب قولہ تعالیٰ: واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا ؛ صحیح مسلم:ح۱۹۵۵؛ ۴؍ ۲۰۳۱ ؛ کتاب البر والصلۃ۔