کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 483
’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے تھے؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرتے ؛ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لوگوں پر غصے ہوتے تھے تو کیا ان باتوں کی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ ہوا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے انہیں آگ کی شدت میں پایا توانہیں نکال کر ہلکی آگ میں لے آیا۔‘‘ [1] حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آپ کے چچا ابوطالب کا تذکرہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقیناًبروزِ قیامت میری شفاعت سے ابوطالب کو فائدہ پہنچے کہ دوزخ کے اوپر والے حصے میں لایا جائے گا کہ جہاں آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس کی شدت سے اس کا دماغ کھولتا رہے گا۔‘‘[2] مزید برآں صرف نسب پر اللہ تعالیٰ نے کسی کی کوئی تعریف نہیں کی۔بلکہ اللہ تعالیٰ ایمان اور تقوی کی بنیاد پر تعریف کرتے ہیں ؛ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: ﴿إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ ﴾ [الحجرات ۱۳] ’’بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو۔‘‘ اصول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’تم لوگوں کو معدنیات جیسا پا ؤگے جیسے سونے اور چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ۔ زمانہ جاہلیت میں جو لوگ بہترین تھے زمانہ اسلام میں بھی وہ لوگ بہترین ہوں گے جبکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں ۔‘‘[3] یہ بات صحیح حدیث سے ثابت شدہ ہے۔ معادن حصول مطلوب کی چیز ہوتی ہیں ۔ اگر ان سے مطلوب حاصل نہ ہو تو وہ معدنیات ناقص ہوتی ہیں ؛ ورنہ حاصل مطلوب اس سے بہتر ہونا چاہیے۔ مزید برآں شیعہ کے تناقض کی انتہاء یہ ہے کہ طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کو ہدف ملامت بنانے کے لیے وہ اس موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مدح و توصیف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں ۔ مگر اتنا نہیں سوچتے کہ ان کے اعتراض کی اصل آماج گاہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بے حد اکرام و احترام کرتے تھے۔آپ کے موافقین اور آپ کے حکم کی تعمیل کرنے والے تھے۔ اور ان کے یا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کسی غلط کاری کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگرشیعہ مصنف طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہا کے بارے میں یہ کہہ سکتا ہے کہ ’’ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے‘‘ ہماری یہ حالت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی بیوی کے ساتھ بات چیت کرے۔ اور سفر
[1] صحیح مسلم:ح۱۳۸ ؛ ۱؍ ۵۵ ؛ کتاب الایمان ؛ باب الدلیل علی صحۃ إسلام من حضرہ الموت ؛ سنن الترمذي ۵؍۲۱ ؛ کتاب التفسیر ؛ باب تفسیر سورۃ القصص۔