کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 471
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:((جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کا ارادہ کیا تو حاطب نے مشرکین مکہ کے نام ایک خط لکھا اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز منکشف کردیے۔ وحی کے ذریعہ آپ ان تمام حالات سے باخبر ہوئے ،تو حضرت علی رضی اللہ عنہ وزبیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا مکہ کی جانب چلتے جاؤ اور جب باغ خاخ آجائے تو وہاں تمھیں ایک شتر سوار عورت ملے گی اس کے پاس ایک خط ہو گا ۔ وہ خط اس سے لے لیجیے۔ جب علی و زبیر رضی اللہ عنہما وہ خط لے کر واپس لوٹے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا کر خط لکھنے کا سبب دریافت کیا۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اﷲ کی قسم! میں نے یہ فعل اس لیے انجام نہیں دیا کہ میں مرتد ہو گیا یا کفر پر راضی ہو گیا تھا۔اصل معاملہ یہ ہے کہ میں نسباً قریشی نہیں ہوں ، بلکہ باہر سے آکر مکہ میں آباد ہوا تھا۔ مدینہ میں جو لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں ، مکہ میں ان کے عزیز و اقارب ہیں جو ہر طرح ان کے گھر بار کی حفاظت کرتے ہیں ۔ میں نے چاہا کہ اس طرح قریش کو ممنون کردوں تاکہ وہ میرے کنبہ کی حفاظت کرتے رہیں ۔‘‘حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں ۔ آپ نے فرمایا:’’ حاطب بدر میں شرکت کر چکا ہے اور اﷲتعالیٰ نے اہل بدر کے متعلق فرمایاہے:﴿اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ ﴾ (جو اعمال چاہو انجام دو میں نے تمھیں بخش دیا۔‘‘اسی دوران میں سورۂ ممتحنہ کی یہ آیت نازل ہوئی:
﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ ﴾
’’ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم ان کے ساتھ دوستی لگانا چاہتے ہو۔‘‘[1]
اہل علم حاطب رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی صحت پر متفق ہیں ۔ یہ واقعہ مفسرین، فقہاء اور علماء سیر وتواریخ کے یہاں خبر متواتر کا درجہ رکھتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں جب فتنہ پروری کا دور دورہ تھا یہ واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے۔ اس کا راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کاتب عبداﷲ بن ابی رافع ہے۔ واقعہ بیان کرنے سے آپ کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم باہمی مشاجرات و تنازعات کے باوصف اللہ تعالیٰ کے نزدیک مغفورہیں ۔خواہ ان کے مابین کچھ بھی ہوا ہو۔
اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ: حضرت عثمان وطلحہ زبیر رضی اللہ عنہم حاطب رضی اللہ عنہ سے بہرحال افضل ہیں ۔ حاطب اپنے غلاموں کے ساتھ سخت سلوک کرتے تھے۔نیز یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مشرکین مکہ کو خط لکھ کر حاطب رضی اللہ عنہ نے جس جرم کا ارتکاب کیا تھا وہ ان لغزشوں کی نسبت عظیم تر تھا جو سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب ہیں ۔ بایں ہمہ آپ نے اس کو قتل کرنے سے روکا اور اس کے جہنمی ہونے کی تردید کی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ حاطب رضی اللہ عنہ بدر و حدیبیہ میں شرکت کر چکا تھا۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن
[1] نے نعثل کا لفظ بولاوہ جبلہ بن عمرو ساعدی تھا۔ اس نے کہا :’’ اے نعثل میں آپ کو قتل کرکے ایک خارشی اونٹ پر سوار کروں گا اور اسے شہر سے باہر پتھریلی زمین کی طرف ہانک دوں گا ۔(دیکھیے تاریخ طبری:۵؍۱۱۴، مطبع حسینیہ) بعد ازاں یہ لفظ جنگ جمل کے موقع پر ہانی بن خطاب ارجی کی زبان پر جاری ہوا وہ کہتا ہے۔
اَبَتْ شُیُوْخُ مُذْحَجٍ وَّ ہَمْدَانَ اَنْ لَّا یَرُدُّوْا نَعْثَلًا کَمَا کَانَ
تیسری مرتبہ یہ لفظ عبدالرحمن بن حنبل جمحی نے جنگ صفین کے موقع پر بولا ۔وہ کہتا ہے:
اِنْ تَقْتُلُوْنِیْ فَاَنَا ابْنُ حَنْبَل اَنَا الَّذِیْ قَتَلْتُ فِیْکُمْ نَعْثَلًا
جب جبلہ بن عمرو ساعدی نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرتے ہوئے پہلی مرتبہ نعثل کا لفظ بولا حضرت عائشہ اس وقت مکہ مکرمہ میں محو عبادت تھیں ۔ جب حج سے واپس لوٹیں تو یہ لفظ آپ کے کانوں تک پہنچا۔
اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ انسان خطا و نسیان سے مرکب ہے، اور رسولوں کے سوا کوئی بشر معصوم نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام اور خاص طور پر خلفاء راشدین انسانیت کی اعلیٰ ترین صفات سے بہرہ ور ہیں ، تاہم وہ خطاء کے مرتکب ہو سکتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی خطا کو درست بھی کرتے ہیں ، وہ خطا کے مرتکب ہونے کے باوصف قلبی طہارت ، صفاء نیت، صدق جہاد اور سلامت مقاصد کی بنا پر باقی مسلمانوں سے بلند ترین مقام و مرتبہ پر فائز ہیں ۔
[2] البخاري ۴؍۵۹؛ مسلم۴؍۱۹۴۱۔