کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 470
جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر پہنچی تو بہت خوش ہوئیں ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب] : ۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس روایت کی دلیل پیش کیجیے۔ دوسری بات:....جوچیز اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے ‘ وہ اس رافضی دعوی کو رد کرتی ہے۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ حضرت کے قتل پر سخت انکاری تھیں ۔قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کومذمت اور نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتیں اور اس میں شرکت کرنے والوں کو ....خواہ ان کا بھائی محمد بن ابوبکر ہو یا کوئی اور مذموم قرار دیتی تھیں ۔انہوں نے اپنے بھائی محمد بن ابو بکر اور مشارکین قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر بد دعا کی تھی۔ [غلط فہمی کی بناپر اہل حق کا باہم کفر و نفاق کا فتوی]: تیسری بات :....فرض کیجیے صحابہ میں سے کوئی....حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہوں یا کوئی اور....غصہ کی حالت میں کوئی ایسی بات کہے؛ اس لیے کہ وہ بعض خرابیوں کا انکار کرنا چاہتا ہو‘ تو اس کی بات کیوں کر حجت ہو سکتی ہے۔[1]اس سے نہ کہنے والے کی شان میں کوئی فرق آتا ہے نہ اس کی شان میں جس کے بارے میں وہ لفظ کہا گیا۔ بایں ہمہ وہ دونوں جنتی بھی ہوسکتے ہیں اور اﷲ کے ولی بھی۔ حالانکہ ان میں سے ایک دوسرے کو واجب القتل اور کافر تصور کرتا ہے مگر وہ اس ظن میں خطاء کار ہے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذ کور ہے؛ جو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکے تھے۔صحیح حدیث میں ثابت ہے ان کے غلام نے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم ! حاطب بن ابی بلتعہ جہنم میں جائے گا ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم نے جھوٹ بولا ؛ وہ بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکا ہے۔ ‘‘[2]
[1] لڑائی ہے جو ۳۷ ہجری میں حضرت عثمان کی خلافت کے زمانہ میں حضرت معاویہ کے زیر قیادت لڑائی لڑی گئی اور جس میں آپ نے جزیرہ قبرص کو فتح کیا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کیلئے یہ فخر کیا کم ہے کہ آپ اوّلین اسلامی بحری بیڑے کے بافی تھے۔یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں شامل ہے کہ ام حرام رضی اللہ عنہا جس نے مجاہدین کے زمرہ میں شریک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور آپ نے اس کو پہلے مجاہدین میں شمولیت کی بشارت دی تھی امیر معاویہ کے بحری بیڑہ میں شریک تھیں ان کے خاوند حضرت عبادہ بن صامت اور دیگر صحابہ میں سے ابودرداء اور ابو ذر رضی اللہ عنہما بھی رفیق لشکر تھے۔ ام حرام نے اسی جگہ وفات پائی اور آج تک آپ کی قبر قبرص میں موجود ہے۔حافظ ابن کثیر مزید فرماتے ہیں : ’’غزوہ قسنطنیہ کے موقع پر دوسرے لشکر کی قیادت کا شرف یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خواب کی تعبیر بروئے کار آئی۔ یہ آپ کی رسالت کی صداقت کے عظیم دلائل میں سے ایک ہے۔‘‘ عباسی خلافت میں تملق و خوشامد کا دور دورہ تھا۔ اور لوگ بنو امیہ کے محاسن کو معائب کا رنگ دے کر عباسی خلفاء کی خوشنودی حاصل کرتے تھے اسی دوران میں چند طالب علم امام الائمہ سلیمان بن مہران الاعمش کوفی رحمہ اللہ کے یہاں جمع ہوکر حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے عدل و انصاف کا ذکر کرنے لگے یہ سنکر امام اعمش بولے:’’ اگر تم امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت دیکھ لیتے تو پھر کیا ہوتا۔‘‘ طلبہ نے عرض کیا:’’ کیا آپ کی مراد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حلم اور بردباری سے ہے۔‘‘ فرمایا اﷲ کی قسم! نہیں بلکہ آپ عدل وانصاف میں یکتا تھا۔‘‘ امام اعمش مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: ’’ اگر تم حضرت معاویہ کو دیکھ لیتے تو کہتے کہ یہی مہدی ہیں ۔‘‘ یونس بن عبید قتادہ بن دعامہ سدوسی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا:’’ اگر تم حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسے کام کرنے لگو تو اکثر لوگ کہنے لگیں کہ تم ہی مہدی ہو۔‘‘ابو اسحاق السُّبَیعی نے ایک دن حضرت معاویہ کاذکر کرتے ہوئے کہا:’’ اگر تم ان کا زمانہ پا لیتے تو کہتے کہ یہی مہدی ہیں ۔‘‘ امام احمد بن حنبل صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تصنیف کتاب الزہدمیں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام زہد میں ضرب المثل کے طور پر بیان کیا ہے۔محی الدین خطیب نے کتاب’’ العواصم من القواصم‘‘ کے حواشی پر اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ ایک طرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ اصلی تصویر ہے جو صلحائے امت محمدی سے منقول ہے۔ دوسری جانب شیعہ کی پیش کردہ جعلی تصویر ہے جو فساق و فجار نے اپنی پر از ضلالت کتب میں امت محمدی کے لاتعداد لوگوں کو مبتلائے فریب کرنے کے لیے وضع کی ہے۔(فَاللّٰہُ حَسِیْبُہُمْ وَ ہُوَ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ)  صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب ذکر کذاب ثقیف و مبیرھا (حدیث: ۲۵۴۵) [2] یہ شیعہ کا وضع کردہ جھوٹ ہے۔ نعثل کا لفظ صرف قاتلین عثمان کی زبان پر جاری ہوا۔ قاتلین عثمان میں سے اوّلین شخص جس(