کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 468
احادیث صحیحہ میں وارد ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [1]
[1] لیے کہ عمیر اصحاب رسول اور زہاد انصار میں سے تھے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح کی کتاب’’ مناقب الصحابہ‘‘ میں ابن ابی ملیکہ تمیمی سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا گیا کہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ ایک وتر پڑھتے ہیں ۔ یہ سن کر انھوں نے فرمایا: ’’ معاویہ رضی اللہ عنہ فقیہ ہیں ۔‘‘ (صحیح بخاری۔ باب ذکر معاویۃ رضی اللہ عنہ ، حدیث:۳۷۶۵) عبد الرحمن بن ابی عمیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ دعا فرمائی: ’’اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہُ ہَادِیًا مَّہْدِیًّا وَاہْدِبْہِ‘‘ ( سنن ترمذی۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۳۸۴۲) عبد الرحمن بن ابی عمیرہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ دعا فرمائی: ’’ اَللّٰہُمَّ عَلِّمْہُ الْکِتَابَ وَالْحِسَابَ وَقِہِ الْعَذَابَ‘‘ (معجم کبیر طبرانی (۱۸؍۲۵۲) مذکورہ بالا روایت امام بخاری نے اپنی تاریخ میں ابو مسہر سے نقل کی ہے۔ (تاریخ کبیر بخاری (۷؍۳۲۷)، امام احمد یہی روایت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔ (مسند احمد (۴؍۱۲۷)، صحیح ابن حبان(۲۲۷۸: الموارد) مفسر ابن جریر اسے ابن مہدی سے روایت کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں مندرجہ ذیل محدثین نے یہ روایت اپنی تصانیف میں نقل کی ہے: ۱۔ اسدبن موسیٰ المتوفی ۱۳۲۔۲۱۲ ہجری جن کو ’’ اسد السنہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ ۲۔ بشر بن السری الافواہ البصری(۱۳۲۔۱۹۵) یہ امام احمد کو استاد تھے ان کی روایت میں ’’ اَدْخِلْہُ الجنۃَ‘‘ کے لفظ بھی ہیں ۔ ۳۔ عبد اﷲ بن صالح مصری یہ امام لیث بن سعد کے کاتب تھے۔ ۴۔ ابن عدی وغیرہ نے یہ روایت ابن عباس سے نقل کی ہے۔ ۵۔ محمد بن سعد۔ صاحب الطبقات یہ روایت مسلمہ بن مخلد فاتح و امام مصر سے بیان کرتے ہیں ۔ حضرت معاویہ کے بارے میں مذکورہ دعائے نبوی کے ناقل لا تعداد صحابہ ہیں ۔(دیکھیے البدایۃ النہایۃ:۸؍۱۲۰۔۱۲۱) نیز ترجمہ معاویہ حرف المیم تاریخ دمشق حافظ ابن عساکر)۔ مذکورۃ الصدر روایات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت معاویہ ہدایت یافتہ اور لاتعداد فضائل و مناق کے حامل تھے۔ ظاہر ہے کہ ان کے مقابلہ میں شیعہ کے مفروض مہدی کی کیا حقیقت جو نہ ابھی پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی اس سے مستفید ہو سکا۔ جو شخص دانستہ ان احادیث کو تسلیم نہ کرے وہ حدیث نبوی کامنکر ہے مقام حیرت ہے کہ بعض شیعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجنے اور ان سے بغض و عداوت رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتے ہیں ان کو دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھنا چاہئے کہ آپ نے حضرت معاویہ کے حق میں ایسی دعا کیوں فرمائی: ’’بے حیا باش ہرچہ خواہی کن‘‘ حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے کہا: ’’ میں معاویہ سے بغض رکھتا ہوں ۔‘‘ تو ابو زرعہ رحمہ اللہ نے کہا:’’ معاویہ کا رب بڑا رحیم وکریم ہے اور آپ کے حریف( حضرت علی) بھی بڑے شریف آدمی تھے۔ تم دونوں کے درمیان مداخلت کرنے والے کون ہو۔‘‘ امام بخاری اپنی صحیح میں جو قرآن کریم کے بعد اس کرۂ ارضی پر صحیح ترین کتاب ہے نیز امام مسلم اپنی صحیح کی کتاب’’ الامارۃ‘‘ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام قباء میں تشریف لے گئے اور انس کی خالہ ام حرام بنت ملحان کے یہاں قیلولہ فرمایا تو آپ ہنستے ہوئے بیدار ہوئے۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ کی امت کے کچھ لوگ تاج و تخت سے آراستہ اعداء دین سے بحری جنگ لڑ رہے ہیں آپ پھر سو گئے اور وہی خواب دیکھا ام حرام نے کہا :یارسول اللہ! دعا فرمائیے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے ان مجاہدین میں شامل کردے۔ آپ نے فرمایا تو پہلے مجاہدین میں شامل ہے۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الاستئذان۔ باب من زار قوماً فقال عنھا (حدیث: ۶۲۸۳، ۶۲۸۲)، صحیح مسلم۔ کتاب الامارۃ ۔ باب فضل الغزو فی البحر (حدیث:۱۹۱۲) حافظ ابن کثیر’’البدایۃ والنہایۃ‘‘(۸؍۳۲۹) پر لکھتے ہیں :’’ حدیث میں جس غزوہ کی پیش گوئی کی گئی ہے اس سے مراد وہ بحری (