کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 467
اپنی مدافعت کرتے ہوئے شہادت پائی۔ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ جو شخص اپنی خلافت و ولایت کا دفاع کرنا چاہتا ہے وہ اس شخص کی نسبت لڑنے کا زیادہ حق دار ہے جو دوسروں سے اقتدار کو چھیننے کا خواہاں ہو ۔ اس پر مزید یہ کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت سے دفاع بھی نہیں کیا تھا۔ بنا بریں آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے ہر حال میں افضل ہیں اورآپ کا قتل قتل ِ حسین سے شنیع تر ہے ۔جیسے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اقتدار کے لیے جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ جدال و قتال سے کنارہ کش رہ کر امت میں صلح کرائی تھی۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح جوئی کے اس اقدام پر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی مدح و ستائش کرتے ہوئے فرمایا: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، اس کے ذریعہ اﷲتعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔‘‘ [1] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حامی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام تھے۔ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینے والے مختار بن ابی عبید ثقفی اور اس کے اعوان و انصار تھے۔ کوئی سلیم العقل آدمی یہ بات کہنے میں تامل نہیں کرے گا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ،مختار ثقفی [2]سے افضل تھے، مختار کذاب تھا اور اس نے نبوت کو دعویٰ بھی کیا تھا۔
[1] صحیح بخاری ۔ کتاب الصلح۔ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للحسن بن علی رضی اللّٰہ عنہما (حدیث:۲۷۰۴) [2] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف سے شیعہ کے جواب میں یہ بات الزاماً کہی گئی ہے ورنہ مختار کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کیا نسبت؟ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ خلفاء راشدین کے بعد پہلے قابل فخر خلیفہ تھے۔ حافظ ابن کثیر البدایۃ والنہایۃ:۸؍۱۳۳) پر مصر کے مشہور امام اور عالم لیث بن سعد المتوفی ۱۷۵ ہجری سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد اس گھر والے( حضرت معاویہ) سے زیادہ کسی کو حقوق کا پورا کرنے والا نہیں دیکھا۔‘‘حافظ ابن کثیر کتاب مذکورہ(۸؍۱۳۵) پر عبد الرزاق بن ہمام صنعانی سے جو بڑے عالم و حافظ تھے روایت کرتے ہیں ، انھوں نے معمر بن راشد سے اورمعمر نے ہمام بن منبہ صنعانی سے جو ثقات تابعین میں سے تھے، سنا انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ:’’ میں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر کسی شخص کو حکومت و سلطنت کا اہل نہیں دیکھا۔‘‘ ظاہر ہے کہ سلطنت کی اہلیت وصلاحیت اسی شخص میں ہوتی ہے جو حکیم، حلیم اور عادل ہو۔ ملک کا دفاع کرتا اور دین اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے کوشاں رہتا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ جو امانت اﷲ نے اس کو تفویض کی ہے، اس میں خیانت کو راہ نہ دیتا ہو۔امام ترمذی ابو ادریس خولانی سے روایت کرتے ہیں : جب عمر رضی اللہ عنہ نے عمیر بن سعدانصاری کو حمص کی ولایت سے معزول کرکے ان کی جگہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تو لوگوں نے ازراہِ تعجب یہ کہنا شروع کیا۔ ’’ عمیر جیسے آدمی کو معزول کرکے معاویہ کو مقرر کیا۔‘‘ (سنن ترمذی، باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان (ح:۳۸۴۳)۔ علامہ بغوی معجم الصحابہ میں لکھتے ہیں کہ عمیرکو لوگ ’’ نَسِیْجُ وَحْدِہٖ‘‘ (اپنی مثال آپ) کہا کرتے تھے۔ ابن سیرین رحمہ اللہ کاقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کثرت زہد کی وجہ سے عمیر کو یہ نام دیا تھا۔ عمیر نے لوگوں کی یہ گفتگو سن کر کہا:’’معاویہ کاذکر اچھے انداز میں کیجیے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اے اﷲ معاویہ کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت عطا فرما۔‘‘(سنن ترمذی،، باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۸۴۳) بعض روایات میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ شہادت خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دی تھی۔بشرط صحت حضرت فاروق کی شہادت سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی عظمت و فضیلت ثابت ہوتی ہے، تاہم اگر یہ شہادت دینے والے عمیر ہوں ....اس کے باوصف کہ آپ کو معزول کرکے حضرت معاویہ کو ان کا قائم مقام بنایا گیا تھا....تو بھی اس شہادت کا درجہ حضرت عمر کی گواہی سے کم نہیں ہے، اس (