کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 466
رکھتے تھے۔ آپ خلیفۂ برحق تھے اور آپ کی خلافت پر مسلمانوں کااجماع منعقد ہوا تھا۔ آپ نے کسی مسلمان پر تلوار اٹھائی نہ کسی کوموت کے گھاٹ اتارا۔ آپ کی ساری عمر جہاد کفار میں بسر ہوئی۔ خلافت صدیقی و فاروقی کی طرح خلافت عثمانی میں بھی مسلمانوں کی تلوار اہل قبلہ سے الگ تھلگ اور کفار کے سر پر آویزاں اور اہل قبلہ سے ہر لحاظ سے دور رہی۔ حالت خلافت میں شرپسندوں نے آپ کو قتل کرنا چاہا تو آپ نے صبر سے کام لیا [1]اور مزاحمت نہ کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔[2]اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عثمان ،حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی نسبت زیادہ اجروثواب کے مستحق ہیں ۔اسی نسبت سے قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والوں کی نسبت بڑے مجرم ہیں ۔ اور ان کا گناہ زیادہ گھناؤنا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ آپ اقتدار سے محروم تھے اور طلب اقتدار کی خاطر گھر سے نکلے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ برسراقتدار تھے ان کے اعوان وانصار آپ کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور آپ نے
[1] ۲۔ کنانہ بن بشر تُجیبی: حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر میں اسے قتل کیا۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شدید مخالف تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر میں جو لوگ قتل کیے گئے تھے۔ یہ ان کو دفن کرنے سے روکتا تھا۔ ۱۳۔ ابن الکوّاء یشکری: اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی خروج کیا تھا اور قتل ہوا۔ ۱۴۔ محمد بن ابی حذیفہ: اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے احسانات کی ناشکری کی۔ سزا کے طور سے یہ ۳۶ ہجری میں بمقام عریش مقتول ہوا۔‘‘ علی ہذا القیاس قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آخرت سے پہلے دنیا میں ہی اپنے کیے کی سزا پالی تھی۔ قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ میں سے جو لوگ پیش پیش تھے ان کے انجام سے بچے بھی آگاہ ہیں ۔  جب باغیوں نے مدینہ طیبہ کا رخ کیا تو اس وقت عساکر اسلامی مختلف بلاد شرق و غرب میں کفار کے خلاف مصروف جہاد تھیں ۔ اسلامی لشکر زیادہ تر ان ممالک میں برسرپیکار تھے جو آج کل روس کے زیر تسلط ہیں ۔ [2] محب الدین الخطیب ’’العواصم من القواصم‘‘ ص:۱۳۲ کے حاشیہ پر لکھتے ہیں کہ:’’اخبار و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ باغیوں کی مدافعت کرنے یا تقدیر ربانی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وارضاہ کا موقف یہ تھا کہ آپ فتنہ پردازی اور خون ریزی سے ڈرتے تھے۔ آخر کار آپ اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اگر آپ ایسی قوت سے بہرہ ور ہوں جس کے سامنے باغیوں کو لا محالہ جھکنا پڑے اور جدال و قتال کی نوبت نہ آئے تویہ بڑی اچھی بات ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ملک شام سے ایک ایسی فوج بھیجنے کی پیش کش کی تھی جو آپ کے اشارہ کی منتظر رہے، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ پیش کش ٹھکرا دی تھی کہ میں مدینہ میں ایسی فوج نہیں رکھنا چاہتا جو یہاں مقیم رہے۔(تاریخ طبری :۵؍۱۰۱) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مسلمان اس حد تک جرأت نہیں کر سکتے کہ دین اسلام کے اوّلین مہاجر( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) کا خون تک بہانے سے گریز نہ کریں ۔ جب باغی اکھٹے ہو کر آگئے اور آپ نے سمجھا کہ مدافعت کرنے میں ناحق خون ریزی ہو گی، تو آپ نے اپنے حامیوں کو بہ تاکید تشدد سے روک دیا۔ اہل سنت و شیعہ سب کی تصانیف ایسے اخبار و آثار سے پُر ہیں ۔ تاہم اگرایسی منظم قوت و شوکت بروئے کار آتی جو باغیوں کی شرارت و جہالت کو بزور روک دیتی تو یہ بات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے راحت و مسرت کی موجب ہوتی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی نظر انداز کرنے کے قابل نہیں کہ آپ شہادت کے متمنی تھے اور اس کے سوا کوئی چیزآپ کے لیے موجب سکون واطمینان نہ تھی۔