کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 465
ہی نہیں ۔ اس پر مزید یہ کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ قباحت و شناعت کے اعتبارسے اﷲ، رسول اور مومنین کے نزدیک قتل حسین رضی اللہ عنہ سے بڑھ چڑھ کر تھا۔ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سابقین اوّلین اور حضرت علی،طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کے طبقہ سے تعلق [1]
[1] اسی تکلیف سے جہنم رسید ہوا۔ ۲۔ حرقوص بن زہیر سعدی: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت کے بعد اس نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ پر خروج کیا تو آپ نے یوم النہروان ۳۹ہجری میں اسے مروا ڈالا۔ ۳۔ حکیم بن جبلہ عبدی: جنگ جمل میں اس کا پاؤں کٹ گیا تھا۔قریب الموت تھا کہ کسی نے ان الفاظ میں پکارا امام مظلوم پر مظالم ڈھانے کی بنا پر جب اﷲ کی گرفت میں آئے ہو تو اے خبیث! اب چلا رہے ہو، تم نے مسلمانوں کے شیرازہ کومنتشر کیا اور ناحق خون بہائے۔ اب انتقام الٰہی کا مزہ چکھو۔‘‘ ۴۔ ذریح بن عباد عبدی: یہ حکیم بن جبلہ عبدی کا رفیق کار تھا جنگ جمل میں مارا گیا۔ بصرہ کے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ میں سے جو جنگ جمل میں زندہ بچ گئے تھے ان کے قبیلہ والے پکڑکر ان کو کتوں کی طرح طلحہ و زہیر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں لائے اور وہ سب تہ تیغ کر دیے گئے۔ بصرہ والوں میں سے صرف حرقوس بن زہیر بچا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے یوم النہروان میں قتل کیا۔ ۵۔ جندب بن زبیر غادری: معرکہ صفین میں قبیلہ ازد کے ایک شہسوار کو للکارا تو ازدی نے اسے قتل کردیا۔ اسکا خالہ زاد بھائی مخنف بن سُلَیم کہا کرتا تھا کہ جندب بچپن میں بھی اور بڑا ہو کر بھی دونوں حالتوں میں منحوس تھا۔ جاہلیت و اسلام دونوں اَدوار میں جندب ہمیشہ بری چیزکا انتخاب کیا کرتا تھا۔ ۶۔ ابوزنیب بن عوف: یہ ۳۷ ہجری میں معرکہ صفین میں مارا گیا۔ ۷۔ شریح بن اوفیٰ عَبَسی: اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا تھا۔ پہلے اس کا پاؤں کاٹا گیا اور پھر قتل کیا گیا۔ بوقت قتل اس نے یہ اشعار پڑھے: اَضْرِبُـہُمْ وَلَوْ اَرٰی اَبَا حَسَنٍ ضَرَبْتُہٗ بِالسَّیْفِ حَتّٰی یَطْمَئِنَّ اَضْرِبُہُمْ وَ لَوْ اَرٰی عَلِیًّا اَلْبَسْتُہٗ اَبْیَضَ مُشْرِقِیًّا ’’ میں ان کو مارتا رہوں گا اور اگر کہیں علی کو دیکھ پایا تو اس کو ضرورتلوار ماروں گا۔ یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو جائے۔میں ان کو مارتا جاؤں گا اور اگر علی کو دیکھ لیا تو میں اس کو صیقل شدہ مشرقی تلوار کا لباس پہناؤں گا۔‘‘ ۸۔ علباء بن ہُشَیم سدوسی: عمرو بن یثربی قاضی بصرہ نے اسے جنگ جمل میں قتل کیا۔ ۹۔ عمرو بن حمق خزاعی:۵۱ ہجری تک زندہ رہا پھر موصل میں اسے نیزے کی اتنی ہی ضربیں لگیں جتنی اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لگائی تھیں ۔ ۱۰۔ عمیر بن ضابی:یہ وہ بدبخت ہے جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی پسلی توڑ دی تھی۔ جب حجاج عراق کا حاکم قرار پایا تو یہ اس کی خدمت میں حاضر ہو کر رحم وکرم کا طالب ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ حجاج اس سے واقف نہیں ۔ حجاج نے کہاکیا تو وہی شخص نہیں جس نے یہ شعر کہا تھا: ہَمَمْتُ وَ لَمْ اَفْعَلْ وَکِدْتُّ وَلَیْتَنِیْ تُرِکْتُ عَلٰی عُثْمَانَ تَبْکِیْ حَلَائِلُہٗ ’’میں نے ( قتل عثمان کا) ارادہ کیا تھا مگر یہ کام نہ کر سکا اے کاش! مجھے اس معاملہ میں کھلی چھٹی ملتی تو عثمان رضی اللہ عنہ کی بیویاں ان پر رونے لگتیں ۔‘‘پھر حجاج کے حکم سے اس کو قتل کردیا گیا۔ ۱۱۔ کعب بن ذی الحبکہ نَہدی: بسربن ابی ارطاۃ نے اس کو قتل کیا۔ (