کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 464
تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ: ’’ جو لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے ؛ ان سے بھی ایسے ہی کوتاہی و تقصیر ہوئی ؛ یہاں تک فتنہ پرداز آپ کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر یہ دعوی کرنا یہ ایک کھلا ہوا واضح جھوٹ ہے کہ لوگوں کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل اجماع ہوگیا تھا ؛ حالانکہ جمہور امت اس کا انکار کرتی ہے ؛ اور لوگ آپ کی مدد کے لیے اور پھر بعد میں آپ کے خون کا بدلہ لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ شیعہ مصنف کا یہ قول اس کی جہالت کا آئینہ دار ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر اجماع منعقد ہوا تھا۔ یہ تو بعینہٖ اسی طرح ہے جیسے ناصبی کہتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے اجماع کے مطابق قتل کیے گئے تھے۔ وہ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ لڑنے والوں اور آپ کو قتل کرنے والوں میں سے کسی نے بھی آپ کی مدافعت نہیں کی تھی۔[1] اس قول میں ناصبی اتنے ہی جھوٹے ہیں جتنے شیعہ اپنے اس دعویٰ میں کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر اجماع منعقد ہوا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی مذمت قتل حسین رضی اللہ عنہ سے زیادہ کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تائید و نصرت اور ان کے قصاص کا مطالبہ[2]کرنے والے لوگوں کی تعداد حامیانِ حسین سے بہت زیادہ تھی۔[3]قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے امت میں جو شروفساد پھیلا؛ قتل حسین رضی اللہ عنہ کے فتنہ کو اس سے کوئی نسبت
[1] حالانکہ آپ کو شیعی ماحول (عراق) میں قتل کیا گیا تھا۔ وہ شیعہ جو کرۂ ارضی کے دور افتادہ گوشوں سے چل کر آپ کے مقتل پر جمع ہوتے ہیں یہی آپ کو دھوکہ دینے والے تھے۔ پہلے بڑے زور و شور سے خط لکھ کر بلایا۔ جب آپ تشریف لے آئے تو آپ کا ساتھ چھوڑ کر صف ِ اعداء میں شریک ہو گئے۔ استاد موسیٰ یعقوبی نجفی ایک معاصر شیعہ ادیب لکھتا ہے: قَدْ کَاتََبَتْہُ اُوْْلُوا الْخِیَانَۃِ اَنَّہَا جُنْدٌ وَّلَیْسَ لَہَا سِوَاہُ اِمَامٌ خیانت کار لوگوں نے آپ( حضرت حسین) کو لکھا تھا کہ ہم آپ کے مددگار ہیں اور آپ کے سوا ہمارا کوئی امام نہیں ۔‘‘ لٰکِنَّہُمْ خَانُوْا الذِّمَامَ وَلَمْ یَفُوْا اَنّٰی وَ مَا لِلْخَائِنِیْنَ ذِمَام ’’مگر انھوں نے اپنے عہد میں خیانت کی اور اسے پورا نہ کیا اور خیانت پیشہ لوگ عہد کے پابند ہی کب ہوتے ہیں ۔‘‘ اگر شیعہ خود فریبی کا شکار نہ ہوتے تو وہ اپنے گھروں میں مقیم رہتے اور خط لکھ کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو دعوت نہ دیتے تو لوگوں کا خون ضائع ہونے سے بچ جاتا اور امت اس عظیم فتنہ میں مبتلا نہ ہوتی۔ اپنی قدر نہ جاننے کا یہ ثمرہ برآمد ہوا کہ شیعہ تاقیامِ قیامت یہ داغ دور نہ کر سکیں گے۔ حضرت زینب بنت علی رضی اللہ عنہما جب عاشوراء کے بعد کوفہ میں داخل ہوئیں اور اہالیان کوفہ حضرت زینب اور ان کے بھائی کاخوشامدانہ الفاظ میں استقبال کرنے نکلے تو انھوں نے اس وقت یہی الفاظ کہے تھے۔ مزید براں حضرت حسین سے خیانت کرنے والے شیعہ بعد میں آنے والے شیعہ سے بہر حال بہتر تھے۔ [2] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فوج میں طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما جیسے گرامی قدر صحابہ شامل تھے، جو عشرہ مبشرہ میں شمار ہوتے ہیں ، اور جن کا مقصد وحید قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصالحت کرنا تھا۔ جنگ صفین انہی مقاصد کی جدو جہد کے دوران وقوع میں آئی تھی۔ [3] قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے سب سے پہلے ذاتِ باری تعالیٰ نے انتقام لیا۔ تفصیلات ملاحظہ فرمائیے: ۱۔ جہجاہ بن سعید غفاری: یہ وہ بدبخت ہے کہ جب حضرت عثمان مسجد نبوی کے منبر پر خطبہ دے رہے تھے تو اس نے عصائے نبوی آپ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اس زور سے آپ کے دائیں گھٹنے پر مارا کہ عصا ٹوٹ گیا۔ اﷲ تعالیٰ نے بہت جلد اس سے انتقام لیا۔ عصائے نبوی کاایک ٹکڑا اس کے زانو میں گڑ گیا اور اس میں کیڑے پڑ گئے پھر پتہ نہ چل سکا کہ اس کا کیا انجام ہوا۔ ظن غالب ہے کہ وہ(