کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 461
اس باب میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ: جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کا حق تھا ‘ ایسے ان کی مدد نہیں کی گئی۔ چونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ معاملہ آپ کے قتل تک نہیں پہنچے گا۔[1] اس لیے انھوں نے آپ کی عملی مدد کرنے میں سہل انگاری سے کام لیا۔اگر انہیں اس بات کا یقین ہوتا کہ معاملہ اتنا خطرناک ہوجائے گا تووہ ضرور آپ کے دفاع میں کھڑے ہوجاتے اور اس فتنہ کو روک لیتے ۔ بس یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق ہے :
﴿وَ اتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ﴾ [الأنفال۲۵]
’’اوراس فتنہ سے بچو!جوتم میں سے خاص کر صرف ظالموں پر واقع نہ ہوگا....‘‘
اس لیے کہ جب ظالم انسان لوگوں پر ظلم کرتا ہے ؛ تواس کی وجہ سے لوگ فتنہ و آزمائش کا شکار ہوجاتے ہیں ‘ اور وہ لوگ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں جن کااس ظلم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اس وقت بڑے بڑے لوگ اس فتنہ کو رد کرنے سے عاجز آجاتے ہیں ۔اس کے برعکس اگر ظالم کو شروع سے ہی روک دیا جائے تو اس فتنہ کا سدباب ہوسکتا ہے ۔
تیسری وجہ :....رافضی انتہائی سخت جھوٹے اور بہت بڑے تناقض کا شکارہیں ۔یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ اجماع
[2]
[1] جب باغیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو آپ کی حفاظت کا حکم دیا اور فرمایا کہ ہر قیمت پر ان کی حفاظت کرنا خواہ تمہاری جان کیوں نہ چلی جائے۔ مگر حضرت عثمان برابر ان کو مدافعت سے منع کرتے رہے۔ حضرت حسن آخری شخص تھے جو سانحہ شہادت کے دن آپ کے گھر سے نکلے۔ حضرت حسن و حسین کے علاوہ عبد اﷲ بن عمر، عبد اﷲ بن زبیر اور مروان بن حکم بھی آپ کی حفاظت کے سلسلہ میں حاضر ہوئے تھے۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بتاکید ان سے کہا کہ ہتھیار رکھ کر اپنے گھروں کو چلے جائیں ۔(دیکھئے: العواصم من القواصم:۱۳۴)
حافظ ابن عساکرنے کہا کہ جب حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو بنو عمرو بن عوف نے حضرت زبیر کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: ’’ ابوعبد اﷲ! ہم آپ کی خدمت میں حضرت عثمان کی مدافعت کے لیے حاضر ہوئے ہیں ۔‘‘ابوحبیبہ کہتے ہیں : حضرت زبیر نے یہ پیغام دے کر مجھے حضرت عثمان کے پاس بھیجا۔‘‘ بعد از سلام ان سے عرض کیجیے کہ تمہارا بھائی زبیر عرض کرتا ہے کہ بنو عمرو بن عوف نے آپ کی مدافعت کے لیے اپنی خدمات کی پیش کش کی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی آپ کے یہاں چلا آؤں تاکہ جو تکلیف آپ کو پہنچے وہ مجھے بھی پہنچے۔ یا بنو عمرو بن عوف کے ذریعہ آپ کی مدافعت کروں جیسے آپ کا ارشاد ہو۔‘‘ ابوحبیبہ کا بیان ہے کہ میں حضرت عثمان کی خدمت میں حاضرہوا ۔ آپ کے یہاں حضرت حسن بن علی، عبد اﷲ بن عمر، ابوہریرہ،....اور عبداﷲ بن زبیر بھی موجود تھے، میں نے حضرت زبیر کا پیغام پہنچایا تو فرمانے لگے: اﷲاکبر! اﷲ کا شکر ہے جس نے میرے بھائی زبیر کو محفوظ رکھا۔ میری جانب سے انھیں کہئے: اگر آپ میرے گھر میں تشریف لائیں گے تو آپ کی وہی حیثیت ہو گی جو ایک مہاجر کی ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ مدافعت کے لیے بنو عمرو بن عوف کا انتظار کریں ۔‘‘ ابو حبیبہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: میرے ان دو کانوں نے آں حضرت کو یہ فرماتے سنا تھا کہ میرے بعد فِتَن و حوادث ظہور پذیر ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! ان سے نجات کی کیا صورت ہو گی؟ آپ نے حضرت عثمان کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ’’امیر(عثمان) اور اسکی جماعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے۔‘‘(مسند احمد (۲؍۳۴۵) و فضائل الصحابۃ، (۷۲۳) مستدرک حاکم (۳؍۹۹، ۴؍۴۳۳) و صححہ و وافقہ الذہبی) لوگوں نے عرض کیا ہمیں لڑنے کی اجازت دیجیے، حضرت عثمان نے فرمایا: میں اپنے اطاعت شعاروں کو بتاکید لڑائی سے روکتا ہوں ۔ابوحبیبہ کا بیان ہے کہ بنو عمرو بن عوف کے آنے سے پہلے ہی فتنہ پردازوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا۔ (سیرۃ ابن ہشام(ص:۲۲۷۔۲۲۹)، صحیح بخاری کتاب الصلاۃ۔ باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ( ح:۴۲۸)، صحیح مسلم۔ کتاب الصلاۃ۔ باب ابتناء مسجد النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (حدیث:۵۲۴)۔
[2]