کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 460
حکم کی طرف لوٹ آئے اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔(یاد رکھو)سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو۔‘‘ اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ مومن باہم لڑنے جھگڑنے کے باوصف مومن ہی رہتے ہیں ۔یہ حکم جب ان لوگوں کے بارے میں ثابت ہے جو ان حضرات صحابہ کرام سے [علم و عمل وایمان میں ] کم تر تھے ‘تو پھر آپ اس حکم کے زیادہ حقدار ہیں ۔ [قتل حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اجماع کا دعوی اور اس پر رد]: [پانچواں اعتراض]:شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر سب مسلمانوں کا اجماع قائم ہو گیا تھا۔‘‘ [جواب] :اس کے جواب میں کئی نکات ہیں : پہلی وجہ :....یہ بڑا گھناؤنا جھوٹ ہے۔ اس لیے کہ جمہور نے نہ ہی قتل کا حکم دیا؛ نہ ہی اس قتل میں شریک ہوئے او نہ ہی وہ اس پر راضی تھے۔ علاوہ ازیں اکثر مسلمان مدینہ میں اقامت گزیں نہ تھے۔ بلکہ مختلف دیار و امصار مکہ ؛ شام ؛ یمن ؛ کوفہ ؛ بصرہ ؛ مصر اور بلاد مغرب سے لے کر خراسان تک آباد تھے۔اہل مدینہ ان مسلمانوں کا ایک حصہ تھے۔ دوسری وجہ:....یہ کہ چند شریراور فتنہ پروراور اوباش؛ زمین میں فساد پھیلانے والے آدمی اس فعلِ شنیع کے مرتکب ہوئے تھے، صلحائے امت نہ اس میں شریک تھے؛ اورنہ ہی ان میں سے کسی ایک نے آپ کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ حلف اٹھایا کر فرمایا کرتے تھے: ’’ اللہ کی قسم ! میں نے نہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور نہ ہی ان کے قتل کی کوئی سازش کی ۔‘‘ آپ قاتلین عثمان پر بددعا کیا کرتے اور فرمایا کرتے تھے: ’’ اے اﷲ! تو قاتلین عثمان پر بحر و برّ اور کوہ و میدان میں لعنت بھیج۔‘‘[1]
[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ نے متعدد مواقع پر قاتلین عثمان سے براء ت کا اعلان کیا اور ان پر لعنت بھیجی، حافظ ابن عساکر(۷؍۸۵) کی روایت کے مطابق آپ نے آخری اعلان واقعہ جمل کے موقع پر کیا۔ مورخ مذکور لکھتے ہیں : جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جنگ جمل کے لیے تشریف لے گئیں تو کعب بن سُور ازدی اونٹ کی مہار پکڑے آگے آگے چل رہا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کعب کو مخاطب کرکے کہا: ’’ مہار کو چھوڑیے اور آگے بڑھ کر لوگوں کو قرآن کی طرف بلایے۔‘‘ یہ کہہ کر آپ نے کعب کو قرآن کریم کا ایک نسخہ دیا۔دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سبائی پیش پیش تھے۔ انھیں خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں فریقین میں صلح نہ ہو جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج کو پیچھے دھکیل رہے تھے مگر وہ بزور آگے بڑھتے جاتے تھے۔ سبائیوں نے آگے بڑھ کر کعب پر بیک وقت اتنے تیر چلائے کہ وہ موقع پر ہی جان بحق ہو گئے۔ سبائی پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھے تو آپ نے پہلی مرتبہ ان الفاظ میں ان کو خطاب فرمایا:ارے لوگو! قاتلین عثمان اور ان کے انصارو اعوان پر لعنت بھیجئے۔‘‘حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ بصرہ والے چیخ چیخ کر دعا کرنے لگے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ آہ و بکا کیسی ہے ؟ جواب ملا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں بد دعا کر رہی ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی دعا کرنے لگے۔ آپ نے فرمایا:’’ اے اﷲ! قاتلین عثمان اور ان کے ہم نواؤں پر لعنت بھیج۔‘‘ (