کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 457
عثمان رضی اللہ عنہ پر ہر گز راضی نہ تھے۔ اور نہ ہی آپ نے اس قتل میں کوئی مدد کی ۔ آپ حلف اٹھایا کرتے اور فرمایا کرتے تھے: ’’ اللہ کی قسم ! میں نے نہ ہی عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا اور نہ ہی ان کے قتل کی کوئی سازش کی ۔‘‘ آپ اپنی قسم میں سچے تھے۔قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کو اندیشہ لاحق ہوا کہ اگر ان لوگوں کا آپس میں اتفاق ہوگیا تو یہ لوگ ہمیں پکڑ کر قتل کرڈالیں گے۔ انہوں نے رات کی تاریکی میں طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکر پر حملہ کردیا۔ ان صاحبان نے یہ خیال کیا کہ شاید حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دھوکہ سے ہم پر حملہ کردیا۔ ان لوگوں نے اپنے دفاع میں جنگ لڑنی شروع کی ۔دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے۔انہوں نے اپنے دفاع میں لڑنا شروع کردیا۔ پس اس وجہ سے یہ فتنہ غیر اختیاری طور پر پیدا ہوا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں ۔ انہوں نے نہ ہی قتال کیا ؛ اورنہ ہی جنگ و قتال کا حکم دیا۔ یہ بات کئی ایک مؤرخین نے ذکر کی ہے۔ [تیسرا اعتراض]: شیعہ مصنف کا قول کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم الٰہی ﴿ وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی﴾’’اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ رہو؛ اور پرانی جاہلیت کی سی بے پردگی نہ کرو‘‘ کی مخالفت کی تھی۔ [جواب ]:آپ جاہلیت کی سی بے پردگی کرتے ہوئے نہیں نکلیں ۔نیز یہ کہ کسی مامور بہا مصلحت کے لیے گھر سے نکلنا استقرار فی البیوت کے منافی نہیں ۔ مثلاً حج و عمرہ کے لیے جانا یا اپنے خاوند کی معیت میں سفر پر روانہ ہونا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سالار رسل صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور آپ اس کے نزول کے بعد ازواج مطہرات کیساتھ حجۃ الوداع کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اس سفر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دیگر امہات المومنین بھی شریک تھیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بھائی عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا۔ آپ ان کے پیچھے ایک ہی اونٹ پر سوار تھیں ۔ عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے مقام تنعیم سے آپ کو عمرہ کرایا۔[1] ٭ حجۃ الوداع کا واقعہ اس آیت کے نزول کے بعد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے تین ماہ سے بھی کم عرصہ پہلے وقوع پذیر ہوا۔ خلافت ِ فاروقی میں بھی ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے جایا کرتی تھیں ۔ حضرت فاروق رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بھیجا کرتے تھے۔ جب امہات المومنین کو کسی مصلحت کی بنا پر سفر کی اجازت تھی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا واقعہ جمل کے لیے اپنے خروج کو بھی مصلحت ِ عامہ پر محمول کرتی تھیں ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ مندرجہ ذیل آیات و احادیث میں باہمی جنگ وجدال سے منع کیا گیا ہے، لہٰذا معترض کہہ سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان میں وارد شدہ وعید کے مستحق ہیں کیوں کہ آپ مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہوئے اور آپ نے ان کو مباح الدم قرار دیا۔اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ (النساء:۲۹)
[1] صحیح بخاری، کتاب العمرۃ، باب عمرۃ التنعیم، (حدیث:۱۷۸۴،۱۷۸۵)،صحیح مسلم۔ کتاب الحج۔ باب بیان وجوہ الاحرام (حدیث:۱۲۱۲، ۱۲۱۳)