کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 456
تھا کہ مسلمانوں کی بہبود و مصلحت کا تقاضا یہی ہے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ مدینہ سے نکلنا ان کے لیے موزوں نہ تھا۔چنانچہ ان کی یہ حالت تھی کہ جب بھی مدینہ سے نکلنے کا واقعہ یاد آتا تو اس قدر روتیں کہ دوپٹہ ترہو جاتا۔ [طبقات ابن سعد(۸؍۵۸] سابقین اوّلین صحابہ جنہوں نے اس جنگ میں شرکت کی تھی؛مثلاً :حضرت طلحہ وزبیر اور علی رضی اللہ عنہم [1]نے بھی اس پر اظہار افسوس کیا تھا۔ جمل کا واقعہ قصداً نہیں بلکہ غیر اختیاری طور پر پیش آیا تھا۔ اس لیے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے درمیان جب مراسلت کا آغاز ہوا اور انہوں نے مصالحت پر اتفاق کر لیا کہ جب بھی انہیں قوت حاصل ہوگی وہ اہل فتنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے بدلہ لیں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل
[1] رفقاء قاتلین عثمان رضی اللہ عنہا سے قصاص لینے کی اساس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مفاہمت کے خواہاں تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رفقاء کے مابین مشہور صحابی قعقاع بن عمرو تمیمی رضی اللہ عنہ صلح کی سعی کر رہے تھے۔ مصالحت سے متعلق مساعی بار آور ہو رہی تھیں ۔ اندریں اثناء حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے نام پیغام بھیجا جس میں کہا: قعقاع بن عمرو کے ساتھ آپ نے جو گفتگو کی تھی اگر اس پر قائم رہو تو ذرا انتظار کیجیے تاکہ ہم اتر کر اس معاملہ پر غور کرلیں ۔اس کے جواب میں ہر دو اصحاب نے یہ پیغام بھیجا: ہم نے قعقاع بن عمرو کے ساتھ مصالحت کی جو گفتگو کی تھی ہنوز اس کے پابند ہیں ۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : حضرت علی و عائشہ رضی اللہ عنہما کے رفقاء ہر طرح مطمئن اور پر سکون تھے۔ جب رات ہوئی تو حضرت علی نے عبداﷲ بن عباس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رفقاء سے بات چیت کرنے کے لیے بھیجا۔ ادھر حضرت عائشہ نے محمد بن طلحہ سجاد کو قاصد بنا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں روانہ کیا۔ فریقین صلح کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ یہ رات سب راتوں کی نسبت زیادہ اطمینان و عافیت سے گزری۔دوسری جانب قاتلین عثمان رات بھر جاگتے اور لڑائی کی تدبیریں کرتے رہے۔ آخر یہ طے کیا کہ منہ اندھیرے لڑائی چھیڑ دی جائے۔ چنانچہ رات کی تاریکی میں نکلے اور چپکے سے حضرت علی اور ان کے برادران طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کے مابین جنگ چھیڑ دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رفقاء اس زعم میں مبتلا تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دھوکا دیا۔ دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا تھے۔ اﷲ و رسول اور دین حق کے ساتھ یہ خیانت کرنے والے قاتلین عثمان تھے، جو شیعہ کے اسلاف میں سے ہیں ۔ شیعہ ان کی امداد کا دم بھرتے اور ان کی پشت پناہی کرتے تھے۔ دوسری جانب حضرت عثمان سے بغض و عداوت رکھتے اور اس بات کو سرے سے تسلیم ہی نہ کرتے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی ازواج مطہرات حضرت رقیہ و ام کلثوم رضی اللہ عنہم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر نیک اختر تھیں ۔ خلاصہ یہ کہ امت محمدی کے صلحاء اس طرح منافقین و اشرار کی بھینٹ چڑھے۔ اب ان کے درمیان اﷲ تعالیٰ ہی اپنا فیصلہ صادر فرمائے گا۔( البدایہ والنہایۃ:۷؍۲۳۹)  حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے طلحہ بن عبید اﷲ رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی میں امام شعبی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک وادی میں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو پڑے ہوئے دیکھا تو ان کے چہرے سے مٹی پونچھی اور کہا اے ابو محمد! اس بے کسی کی حالت میں آپ کا مردہ پڑا ہوا ہونا مجھ پر بڑا شاق گزرا ہے میں اﷲ کے حضور ہی میں اس کا شکوہ عرض کرتا ہوں ۔‘‘ نیز کہا:’’ اے کاش! میں آج سے بیس سال پہلے فوت ہوجاتا۔‘‘مستدرک حاکم (۳؍۳۷۲ ،۳۷۳) ، معجم کبیر طبرانی (۲۰۲،۲۰۳) واقعہ جمل کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیٹا عمران حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اسے خوش آمدید کہا اور اپنے قریب بٹھا کر فرمایا: مجھے امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے اور آپ کے والد کو ان لوگوں میں شامل کرے گا جن کا ذکر اس آیت میں ہے: ﴿وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِہِمْ مِنْ غِلٍّ﴾(مستدرک حاکم(۳؍۳۷۷،۲؍۳۵۳)۔ حارث بن عبد اﷲ اعور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زبردست حامیوں میں سے تھا ۔ وہ ایک کونے میں بیٹھاتھا ۔ حارث کہنے لگا ۔ یہ بات عدل باری تعالیٰ کے منافی ہے کہ ہم عائشہ رضی اللہ عنہا کے رفقاء کو قتل کریں اور وہ جنت میں ہمارے رفیق بھی ہوں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دفع ہو جاؤ اگر میں اور طلحہ رضی اللہ عنہ جنت میں نہیں جائیں گے تو اور کون جائے گا؟ یہ کہہ کر آپ نے ایک دوات اعور پر کھینچ ماری مگر وار خطا گیا اور وہ دوات اسے نہ لگی۔