کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 455
حق یہ ہے کہ آپ نے خلوص دل سے توبہ کی تھی۔ اسی طرح جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح حدیبیہ میں کفار کے ساتھ مصالحت کی تو صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’اونٹوں کو نحر کیجیے اورسر منڈائیے۔‘‘یہ حکم سن کر جب کوئی صحابی نہ اٹھا؛تو آپ ناراض ہو کر ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ تو انھوں نے کہا: جس نے آپ کو ناراض کیا اﷲ اسے ناراض کرے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں کیوں کر ناراض نہ ہوں میں ایک حکم صادر کرتا ہوں اور کوئی شخص اس کی اطاعت نہیں کرتا۔‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: حضرت!آپ اپنی قربانی منگوا کر ذبح کیجیے، اور حجام کو طلب کرکے سر منڈوایے۔ دوران صلح آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دستاویز سے اپنا نام محو کرنے کا حکم دیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’اﷲ کی قسم! میں آپ کا نام نہیں مٹاؤں گا۔‘‘چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دستاویز لے کر اپنا نام مٹا دیا۔[1] ظاہر ہے کہ مذکورہ واقعات میں ارشادنبوی کی تعمیل سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کا اس حد تک پس و پیش کرنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو گئے۔اگریہ کسی کے نزدیک گناہ ہو تو جو جواب اس کا ہے وہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ کا جواب ہے۔ بعض لوگ تاویل کی پناہ لے کر کہتے ہیں کہ صحابہ نے تعمیل ارشاد میں اس لیے دیر لگائی کہ ان کو مکہ میں داخل ہونے کی امید تھی۔ دوسرے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر اس میں تاویل کی گنجائش ہوتی تو آپ کے برہم ہونے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ بخلاف ازیں صحابہ نے بارگاہ ایزدی سے اس تاخیر کی معافی طلب کی تھی۔حالانکہ بلا توبہ، اعمال صالحہ سے بھی ایسے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تاخیر کرنے والوں میں شامل تھے۔(رضی اللہ عنہم ) [دوسرا اعتراض]: ....شیعہ مصنف نے جو ایک روایت نقل کی ہے ؛ جس میں [حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہاگیا ہے] : ’’ تم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑو گی اوراس پر ظلم کرنے والی ہوگی۔‘‘ جواب :[یہ روایت صریح کذب ہے]حدیث کی کسی بھی معتمد کتاب میں ایسی کوئی روایت نہیں ملتی۔اور نہ ہی اس روایت کی کوئی معروف سند ہے۔بلکہ یہ ان موضوع روایات میں سے ہے جو اپنی طرف گھڑ لی گئی ہیں ۔اور انہیں صحیح احادیث کے مشابہ بنادیا گیاہے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے نہیں نکلی تھیں اور نہ ہی آپ کی نیت جنگ کرنے کی تھی۔ بلکہ مسلمانوں کے مابین صلح کرانے کے جذبہ سے باہر نکلی تھیں ۔[2]ان کا خیال
[1] صحیح بخاری، کتاب الشروط۔ باب الشروط فی الجہاد(حدیث:۲۷۳۱، ۲۷۳۲)۔ [2] مورخہ ۲۵؍ذوالحجہ ۳۵ھ بروز جمعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ منصب خلافت پر فائز ہوئے۔مسلمان متوقع تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر حد شرعی قائم کریں گے۔ مگر ربیع الاوّل ۳۶ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ عازِم عراق ہوئے ۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہم کی دلی تمنا یہ تھی کہ ان کے والد مدینہ ہی کو اپنا مستقر قرار دیں ۔( تاریخ طبری:۵؍۱۷۱)، قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ زیادہ تر کوفہ و بصرہ کے رہنے والے تھے اور وہ آپ کے لشکر میں شامل تھے۔ کوفہ پہنچ کر ان کی قوت اور بڑھ گئی اوران کے قبائل ان کی امداد کے لیے تیار ہو گئے۔ تاریخ اسلام کے اوراق اس امر کے زندہ گواہ ہیں کہ حضرت علی قاتلین حضرت عثمان سے براء ت کا اظہار فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے(