کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 454
پہلا جواب:....جن نصوص قرآنیہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی بعض لغزشوں کا ذکر ہے؛شیعہ ان کی تاویلات کرکے ان کو نمایاں کرنا چاہتے ہیں ۔ اہل سنت ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان سے توبہ کر لی تھی۔ اﷲتعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرکے ان کے درجات بلند کردیئے۔شیعہ نے افشائے رازکے بارے میں جو آیت ذکر کی ہے وہ اس نوع کی پہلی آیت نہیں ہے ؛اور دیگر آیات کی طرح اس کی تاویل بھی ممکن ہے۔اگر اس آیت کی تاویل کرنا باطل ہے تودوسری آیات کی تاویل بھی باطل ہوگی۔ دوسرا جواب:....بفرض محال اگر سیدہ عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما نے کوئی لغزش کی بھی تھی تو حسب ذیل آیت کریمہ کے مطابق اس سے تائب ہو گئی تھیں ۔ جیسا کہ قرآن کے اس فرمان سے ظاہر ہے: ﴿اِنْ تَتُوْبَا اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا﴾ (التحریم:۳) ’’اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو (تو بہت بہترہے)یقیناً تمہارے دل جھک پڑے ہیں ۔‘‘ مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توبہ کی دعوت دی ہے۔ سیدہ عائشہ و حفصہ رضی اللہ عنہما کی عظمت شان کے پیش نظر یہ بدگمانی درست نہیں کہ انھوں نے توبہ نہیں کی ہوگی۔حالانکہ ان کے بلند درجات ثابت شدہ ہیں ۔ مزید برآں ان کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ آپ جنت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت سے مشرف ہوں گی۔ نیز یہ کہ اﷲتعالیٰ نے ان کو اختیار دیاتھا کہ دنیاکی زیب و زینت یا اﷲو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دار آخرت میں سے جس کو چاہیں منتخب کریں ؛تو انھوں نے اﷲ و رسول اور دار آخرت کو دنیا کے مقابلہ میں ترجیح دی۔ انھی خصوصیات کا تقاضا تھا کہ ان کے عوض دوسری ازواج سے نکاح کرنے کو حرام قرار دیا گیا تھا اور ان کے علاوہ دیگر مستورات کو نکاح میں لانے کی بھی ممانعت کردی گئی تھی۔جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی ازواج بنص قرآنی امہات المومنین کا درجہ رکھتی تھیں ۔ ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں کہ توبہ نیز اعمالِ صالحہ اور مصائب مکفّرہ سے بھی گناہوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ تیسرا جواب:.... ازواج مطہرات کے بارے میں جن گناہوں کی نشان دہی کی جاتی ہے وہ اسی طرح ہیں جیسے اہل بیت و صحابہ میں سے مشہود لہم بالجنۃ کی جانب بعض گناہوں کی نسبت کی جاتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے علی کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کی اجازت طلب کی ہے۔ واضح ہو کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے البتہ اگر علی چاہے تو میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی لڑکی سے نکاح باندھ لے۔فاطمہ میرا جگر پارہ ہے، جو چیز اسے ایذا دیتی ہے اس سے مجھے دکھ پہنچتاہے۔‘‘[1] یہ سوء ظن بے بنیاد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ظاہری طور پر بنت ابی جہل سے نکاح کرنے کا ارادہ ترک کردیا تھا،
[1] صحیح بخاری۔ کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ باب ذکر اصہار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۳۷۲۹، ۵۲۳۰) ، صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہا (ح:۲۴۴۹)