کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 450
حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : عائشہ!’’ جبریل علیہ السلام آپ کو سلام کہتے ہیں ۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ، جو کچھ آپ دیکھتے ہیں ، ہم کو نظر نہیں آتا۔‘‘[1] سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا [2]کوطلاق دینے کا ارادہ کیا تو انھوں نے آپ کی اجازت سے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے باری کے دن کا بے تابانہ انتظار کرتے اور فرمایا کرتے تھے، ’’میں آج کا دن کہاں گزاروں گا؟‘‘ پھر سب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں قیام کی اجازت دے دی۔ آپ آخر دم تک وہاں مقیم رہے۔[3]آپ نے اپنے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لعاب دہن کو یک جاکیا[4]اسی دوران سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی آغوش میں عالم آخرت کو سدھارگئے۔[5] سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا وجود مسعودِ امت کے لیے لا تعداد فوائد وبرکات کا موجب ہوا۔ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے آیت تیمم نازل ہوئی تو حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اے آل ابی بکر! یہ تمہاری اوّلین برکت نہیں ہے۔ اے عائشہ! تم پر جو مصیبت بھی نازل ہوئی، اسے
[1] صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ باب فضل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ۔ (حدیث:۳۷۶۸) ،صحیح مسلم ۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب فی فضائل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ۔(حدیث:۲۴۴۷) [2] ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا قریش کے قبیلہ بنی عامر سے تعلق رکھتی تھیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا و سودہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ایک ہی وقت میں عقد باندھا گیا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس وقت کم سِن تھیں ۔ اس لیے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا ان سے پہلے آپ کے گھر میں آباد ہوئیں ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو انھوں نے عرض کیا۔ مجھے خاوند کی حاجت نہیں ، میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ میں بروز قیامت آپ کی بیوی کی حیثیت سے اٹھائی جاؤں ۔ جب انھوں نے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا اَنْ یُصْلِحَا بَیْنَہُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَیْرٌ﴾ (سنن ابی داؤد۔ باب فی القسم بین النساء (ح:۲۱۳۵) سنن ترمذی(۳۰۴۰) عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ۔ بمعناہ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرماتی ہیں : سودہ رضی اللہ عنہا کے سوا دوسری کوئی عورت نہیں جس کے بارے میں میری یہ خواہش ہو کہ میں اس کی کھال میں داخل ہو جاؤں ۔(اپنے آپ کو اس سے تبدیل کرلوں ) (مسلم۔ کتاب الرضاع ، باب جواز ھبتھا نوبتھا لضربھا، (ح: ۱۴۶۳) ۔خلافت فاروقی میں جب بلا جنگ و قتال بہت سا مال آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک تھیلا درہموں سے بھر کر بھیجا۔ حضرت سودہ نے دریافت کیا یہ کیا ہے ؟ جواب ملا:درہم، آپ نے فرمایا: یہ تو کھجوروں کے تھیلے کی طرح بھرا ہوا ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے وہ سب درہم تقسیم کردیے۔ (طبقات ابن سعد(۸؍۵۶) [3] صحیح بخاری، کتاب المغازی۔ باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم و وفاتہ (حدیث:۴۴۵۰)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فی فضائل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا (حدیث:۲۴۴۳)۔ [4] صحیح بخاری، حوالہ سابق(حدیث:۴۴۵۱)، صحیح مسلم، حوالہ سابق۔ [5] صحیح بخاری ۔ کتاب التیمم(ح:۳۳۴،۳۳۶) مسلم۔کتاب الحیض۔ باب التیمم(ح:۳۶۷)