کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 45
پھر اگر غلام غیر قادر ہو تو آقا اس کی اعانت کرتا ہے تاکہ امر کی مراد کی مصلحت اسے ملے۔ بلکہ اللہ کا امر ارشاد، ہدایت اور بندوں کو ان کی دنیا و آخرت کے حق میں مفید باتوں کی رہنمائی ہے۔ پس جو نفع و نقصان والے فعل کو جان لیتا ہے اور یہ کہ اسے نافع فعل کی احتیاج ہے۔ وہ ایسی بات کبھی نہیں کرتا کہ مجھے اس امر کی احتیاج تو ہے، پر کروں گا تب جب مجھ میں اس کا فعل تخلیق ہوگا۔ بلکہ ایسا آدمی تو امرِ الٰہی کے سامنے سراپا تسلیم و رضا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اللہ اس کی اس فعل پر اعانت فرماتا ہے۔ جیسے اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ وہ دشمن تجھ پر حملہ کرنے والا ہے، یا یہ درندہ تجھے پھاڑ کھائے گا، یا سیلابی ریلا تیر اگھر ڈوبنے والا ہے، تو وہ ہر گز یہ نہ کہے گا کہ میں اس وقت بھاگوں یا بچوں گا نہیں ۔ جب تک اللہ مجھ میں بھاگنا پیدا نہ کرے گا، بلکہ وہ اسی وقت بھاگ کھڑا ہوگا اور اللہ سے اس پر اعانت مانگے گا۔ اسی طرح کھانے پینے کی اور لباس پوشاک کی ضرورت کے وقت بھی وہ یہ نہیں کہتا کہ جب تک اللہ مجھ میں یہ چیزیں پیدا نہ کرے گا۔ میں نہ کھاؤں پیوں گا اور نہ کچھ پہنوں گا۔ بلکہ وہ ان باتوں کا ارادہ اور کوشش کرے گا، اور اللہ سے اس کی تیسیر کا سوال کرے گا۔ پس انسانی فطرت اس بات پر بنائی گئی ہے کہ وہ قابلِ احتیاج چیزوں کو پسند کرتی ہے اور مضر اشیاء کو دفع کرتی ہے، اور اس پر رب تعالیٰ سے استعانت کرتی ہے۔ یہ اس فطرت کا موجب ہے جس پر اللہ نے بندوں کو پیدا کیا ہے۔ اسی لیے اللہ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ مامورات کی بجا آوری میں اس سے اعانت کا سوال کریں۔ ۶۔ چھٹا جواب یہ ہے کہ: یہ کہا جائے کہ یا تو ایسی بات طاعت کا مرید ہی کرے گا جو جانتا ہے کہ یہ اس کے لیے نافع ہے یا وہ کرے گا جو اس کے نافع ہونے کو نہیں جانتا، اور دونوں سے ہی ایسی بات کا ہونا ممتنع ہے۔ وہ یوں کہ جو طاعت کو اور اس کے نافع ہونے کو جانت اہے وہ عاجزی کی صورت کے سوا ہر صورت میں اطاعت کرے گا۔ کیونکہ قدرت کے ساتھ طاعت کا ارادۂ جازمہ طاعت کو واجب کرتا ہے۔ کیونکہ طاعت، قدرت، اور داعی تام کے وجود کے ساتھ مقدور کے وجود کو واجب کرتی ہے۔ لہٰذا جب طاعت شہادتین کا تکلم ہے تو جس میں اس کا ارادۂ جازمہ ہوگا وہ شہادتین ضرور پڑھے گا۔ کیونکہ قدرت اور داعی تام موجود ہے، اور جو ایسا نہ کرے گا تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اگر وہ طاعت چاہنا ہی نہیں تو رسول سے اس کا یہ مطالبہ ہی ممتنع ہوگا کہ اللہ اس میں طاعت کو پیدا کرے۔ کیونکہ اگر وہ رسول سے اس کے اپنے اندر پیدا کیے جانے کا مطالبہ کرے گا تو وہ طاعت کا مرید ٹھہرے گا، اور سوائے مرید کے کوئی ایسی بات کر نہیں سکتا۔ طاعتِ مقدورہ کا مرید وہی ہوگا جو اسے کر گزرے گا۔ اس کی مزید تفصیل ساتویں جواب میں ملاحظہ ہو: ۷۔ ساتواں جواب یہ ہے کہ: اسے یہ کہا جائے گا کہ تو ایمان لا سکتا ہے اور اس پر قادر ہے۔ اگر تو نے اس کا ارادہ کیا تو کرے گا، اور اگر تم ایمان نہیں لاتے تو یہ تمہارا ارادہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے ناکہ عدم قدرت اور عجزہ کی وجہ سے