کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 449
گویا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود ہے۔ نہ آپ کو تبلیغ احکام کا شرف حاصل ہوا اور نہ ہی امت آپ سے نفع اندوز ہو سکی۔ جب کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے امت کو بڑا فائدہ پہنچا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دین اسلام اس وقت تکمیل کو نہیں پہنچا تھا اور ابھی ان کمالات کی تحصیل کا وقت نہیں آیا تھا جو بعد میں آنے والے لوگوں نے حاصل کیے۔ یہ امر محتاج بیان نہیں کہ جو شخص اپنی توجہات کو ایک ہی بات پر مرکوز کر دے، وہ اس کی نسبت بہتر ہو گا جس نے مختلف امور و اعمال کو اپنی نظر وفکر کی آماج گاہ بنا رکھا ہو۔ یہ ہے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت کی وجہ وجیہ! مگر معاملہ یہ ہے کہ نیکی کے جملہ اقسام افضلیت کے اس پہلو میں محصور و محدود نہیں ہیں ۔ یہ ایک موٹی سی بات ہے کہ صحابہ کرام میں سے جو لوگ ایمان و جہاد میں پیش پیش تھے، مثلاً حضرت حمزہ، علی، سعد بن مُعاذ، اُسَید[1]بن حُضیر رضی اللہ عنہم وہ ان لوگوں کی نسبت افضل تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت و نفع رسانی میں ان سے سبقت لے گئے تھے۔ مثلاً ابو رافع اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما ۔ بہر کیف یہاں سیدہ عائشہ و خدیجہ رضی اللہ عنہما کی افضلیت کی تفصیلات بیان کرنا مقصود نہیں ۔ اصلی مقصد یہ بتانا ہے کہ اہل سنت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تعظیم و تکریم اور محبت کے بارے میں متفق اللسان ہیں ۔ نیز یہ کہ جملہ ازواج مطہرات میں سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپ کو عزیز تر تھیں ؛ آپ ان سب میں سے بڑی عالم تھیں ۔ مسلمان بھی جملہ امہات المومنین رضی اللہ عنہم میں سے ان کا زیادہ اکرام و احترام ملحوظ رکھتے ہیں ۔ روایات صحیحہ میں موجود ہے کہ صحابہ دانستہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحائف بھیجا کرتے تھے، کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت رکھتے ہیں ۔ اس کی حد یہ ہے کہ دیگر ازواج آپ کو رشک کی نگاہ سے دیکھنے لگیں اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بارگاہ نبوی میں بھیجا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ کی بیویاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے بارے میں عدل وانصاف کا تقاضا کرتی ہیں ۔‘‘تو آپ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مخاطب کرکے فرمایا:’’پیاری بیٹی! جس سے مجھے محبت ہے کیا تواسے محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھتی؟‘‘سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: کیوں نہیں ! توآپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ تو اس سے محبت رکھیے۔‘‘[2]
[1] یہ انصار کے قبیلہ بنی عبد الاشہل سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد قبیلہ اوس کے مشہور شہسوار اور جنگ بُعاث میں سالار لشکر تھے۔ اسید سابقین اوّلین میں سے تھے۔ یہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے یہ لیلۃ العقبہ کے نقباء میں سے ایک تھے۔ یہ زندگی بھر شرافت کا مجسمہ رہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسید کو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا بھائی قرار دیا تھا۔ یہ غزوۂ احد میں ثابت قدم رہے اور ان کے جسد اقدس پر سترہ زخم آئے۔ یہ خلافت فاروقی تک بقید حیات رہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیت المقدس کی فتح کے وقت وہاں موجود تھے۔ سرور کائنات نے ان کی مدح میں فرمایا :’’ اسید بہت اچھے آدمی ہیں ۔‘‘(سنن ترمذی۔ کتاب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل.... رضی اللہ عنہ (ح: ۳۷۹۵) مطولاً، مستدرک حاکم (۳؍۲۸۸)، جس طرح عمرو بن العاص کی مدح میں فرمایا تھا: ’’ عبد اﷲ کے سب گھر والے اچھے ہیں ۔ عبد اﷲ ،ابو عبد اﷲ اور ام عبد اﷲ رضی اللہ عنہم سب نیک لوگ ہیں ۔‘‘(مسند احمد (۱؍۱۶۱، ۴؍۱۵۰) اسید رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نعش اٹھانے میں حصہ لیا اور بقیع میں مدفون ہوئے۔(مستدرک حاکم (۳؍۲۸۷) معجم کبیر طبرانی (۱؍۲۰۳) [2] صحیح بخاری، کتاب الھبۃ، باب من اھدی الی صاحبہ(حدیث:۲۵۸۱)، صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب فی فضائل عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا ۔ (حدیث: ۲۴۴۱، ۲۴۴۲)