کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 442
حق پر ہوں گے۔ حالانکہ ایسا کہنا صریح کفر ہے اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ اوراگر اس سے مطلق محبت مراد ہو تو پھر اس کا معاملہ بھی علیحدہ ہے۔
اہل سنت والجماعت کہتے ہیں :ہم شیعہ سے بڑھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے والے ہیں ۔اس لیے کہ جس محبت میں غلو پایا جائے ‘ وہ یہودکی حضرت موسی علیہ السلام سے اور نصاری کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے محبت کی طرح ہے۔یہ محبت باطل ہے۔ صحیح محبت یہ ہے کہ محبت کرنے والااپنے محبوب سے ان اوصاف و خصال کی وجہ سے محبت کرے جو اس میں موجود ہیں ۔اگر کوئی شخص کسی نیک انسان کے متعلق یہ نظریہ رکھے کہ فلاں ولی اللہ کا نبی ہے۔یا اس کا شمار سابقین اولین میں ہوتا ہے؛ وہ اس بنیاد پر اس سے محبت کرنے لگ جائے۔ حقیقت میں اس نے ایسی چیز سے محبت کی ہے جس کی کوئی اصل یا حقیقت نہیں ہے۔اس لیے کہ محبت کرنے والے نے اس وجہ سے محبت کی ہے کہ وہ صفات اس کے محبوب میں موجود ہیں ۔ جب کہ یہ صفات اس میں اصل سے موجود ہی نہیں ۔توپھر اس نے موجود اوصاف سے محبت نہیں کی بلکہ معدوم سے محبت کی ہے۔اس کی مثال اس شخص کی ہے جو کسی عورت سے یہ سوچ کر شادی کرے کہ وہ بڑی مال دار ہے ؛ بہت خوبصورت ہے؛ دیندار اور حسب و نسب والی ہے۔پھر اس کے لیے عیاں ہوں کہ اس میں ان کے خیالات و تصورات میں سے کوئی چیزنہیں پائی جاتی۔تو یقیناً جتنی اس عورت میں کمی نظر آئے گی؛ اس قدر اس کی محبت میں بھی کمی آئے گی۔اس لیے کہ جب حکم کسی علت کی وجہ سے ثابت ہو تو اس علت کے ختم ہونے سے حکم بھی ختم ہوجاتا ہے۔
یہودی جب حضرت موسی علیہ السلام سے محبت کرتا ہے تو [اگر]وہ اس بنیاد پر محبت کرتا ہے : آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’ جب تک آسمان وزمین باقی رہیں ‘تم ہفتہ کے دن میں رکے رہنا ۔ اور آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کی پیروی کرنے سے منع کیا ہے۔‘‘حالانکہ حضرت موسی علیہ السلام نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ۔جب قیامت والے دن یہودیوں کے لیے حضرت موسی علیہ السلام کی حقیقت واضح ہوگی تو وہ جان لیں گے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے حقیقی اوصاف کی وجہ سے آپ سے محبت نہیں کرتے تھے۔بلکہ ان کی محبت کی بنیاد ایسے اوصاف تھے جن کا اصل میں کوئی وجود ہی نہیں ۔پس اس بنا پر اس کی محبت باطل ہو گی۔اس لیے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بشارت دینے والانہ ہوگا۔
صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ)) [1]
’’ آدمی [بروزقیامت]اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس نے محبت کی ہوگی ۔‘‘
یہودی کی محبت صرف اس چیز سے ہے جس کااصل میں کوئی خارجی وجود ہی نہیں ۔حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی ایسی بشارت نہیں دی۔ تو پھروہ حضرت موسی علیہ السلام سے محبت کرنے والا تو نہ ہوا۔محبت؛
[1] صحیح بخاری ،کتاب الأدب ‘باب : علامۃ حب اللّٰہ عزو جل ‘ ح: ۵۸۲۲۔ صحیح مسلم ؛کتاب البر ....‘ باب: المرء مع من أحب ؛ ح: ۴۸۸۵، صحیح الجامع:۶۶۸۹۔