کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 441
و شافی بیان موجود ہے ۔اور قرآن ہی وہ فرق کرنے والی کتاب ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حق و باطل میں فرق کیا ہے ؛ اس میں کوئی شک و شبہ والی بات ہی نہیں ۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ : جو لوگ آپ کے ساتھ مل کر لڑتے تھے وہ حق پر تھے ‘ اور جو آپ سے لڑرہے تھے وہ باطل پر تھے ۔تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگر اس بات کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے آپ کے اور صرف اس خاص گروہ کے درمیان فرق و امتیاز ہوتا ہے۔پس اس لحاظ سے ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اس کے زیادہ حق دار ہیں ۔اس لیے کہ انہوں نے اہل حق مؤمنین کو ساتھ لیکر کفار اہل باطل سے قتال کیا ۔ان لوگوں کی وجہ سے جو فرق و تمیز حاصل ہوئی وہ زیادہ اکمل و افضل تھی۔اس لیے کہ کوئی عقلمند اس بات میں شک نہیں کرسکتا کہ جن لوگوں سے خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم نے قتال کیا وہ باطل پرستی کے زیاد قریب تھے بہ نسبت ان لوگوں کے جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتال کیا ۔ اس لیے کہ جب بھی دشمن جتنا زیادہ باطل پر ہوتا ہے اس سے لڑنے والے اس قدر زیادہ حق پر ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ بروز قیامت سب سے زیادہ عذاب میں وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے کسی نبی کوقتل کیا ہو ‘ یا پھر کسی نبی کے ہاتھوں سے قتل ہوا ہو۔ وہ مشرکین جو کہ براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیا کرتے تھے ؛ جیسے ابو جہل ‘ ابو لہب وغیرہ ؛ یہ دوسرے لوگوں سے بڑھ کر برے تھے۔پس جب خلفاء ثلاثہ سے لڑنے والے سب سے بڑے باطل پرست تھے تو ان کی ہمراہی میں لڑنے والے سب سے بڑے حق پرست تھے۔اس لحاظ سے یہ لوگ صفت فرقان کے زیادہ حق دارہیں [کہ انہیں فاروق کا خطاب دیا جائے ]۔ اگر یہ کہا جائے کہ :’’ آپ اس لیے فاروق ہیں کہ آپ کی محبت اہل حق و اہل باطل کے مابین فرق کرنے والی ہے ۔‘‘ تواس کا جواب یہ ہے کہ: اولاً: یہ آپ کا ذاتی فعل نہیں ہے کہ اس وجہ سے آپ کو فاروق کہا جائے ۔ ثانیاً : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اہل حق و اہل باطل کے درمیان سب سے بڑی وجہ تمیز وتفریق ہے ۔ اس پر تمام مسلمانوں کااتفاق ہے ۔ ثالثاً : اگر کوئی اعتراض کرنے والا اعتراض کرے اورکہے کہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی محبت اہل حق و اہل باطل کے مابین فرق کرنے والی ہے تو ان کا دعوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہی دعوی کرنے والوں سے کسی طرح کمزور نہیں ہوگا۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے آپ نے جب فتنہ کا ذکر کیا تو[حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق] فرمایا : ’’اس دن یہ اور اس کے ساتھی حق پر ہوں گے ۔‘‘ [1] اگر یہی دعوی حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں کہا جائے تو یہ بات کسی پر مخفی نہیں ہے کہ ان کا دعوی غالب ہوگا۔ اور جس کسی کا قول صرف دعوے تک محدود ہو تو اس کا مقابلہ ایسے ہی دعوی سے کیا جاسکتا ہے ۔ اگر اس سے مطلق محبت کا دعوی مراد ہو تو پھر اس میں غالی لوگ بھی داخل ہوں گے ؛ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب یا نبی مانتے ہیں ۔ تو پھر یہ لوگ زیادہ
[1] الترمذي ۵؍۲۹۱ ؛ کتاب المناقب : باب مناقب عثمان رضی اللّٰہ عنہ ؛ قال الترمذي: حسن صحیح۔