کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 44
فرمایا تھا: ’’میں تمہیں صبح کو ہونے والے حملے سے آگاہ کرتا ہوں ! لوگوں نے کہا ٹھیک ہے (ہم سننے اور ماننے کو تیار ہیں ) پھر فرمایا: بھلا بتاؤ تو کہ اگر تمہیں یہ خبر دوں کہ صبح کو تم لوگوں پر حملہ ہونے والا ہے تو کیا تم لوگ میری تصدیق کرو گے؟ لوگوں نے کہا: ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں پرکھا۔ (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں )۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمہیں آگے آنے والے ایک شدید عذاب سے ڈراتا ہوں ۔‘‘ [1] اور یہ بھی فرمایا: ’’میں تو کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں ۔‘‘ [2] یہ بات معلوم ہو کہ دشمن سے ڈرائے جانے والا کبھی ڈرانے والے کو یہ نہیں کہتا کہ: تو دعا کر کہ اللہ مجھ میں ایسی قدرت پیدا کر دے کہ میں بھاگ نکلوں ۔ بلکہ وہ فرار ہو جانے کی حتیٰ الامکان کوشش کرتا ہے۔ البتہ اللہ فرار میں اس کی اعانت کرتا ہے۔ پس ایسا کلام صرف وہی کرتا ہے جو رسولوں کا مکذب ہو۔ کیونکہ نذیر کو سچا سمجھتے ہوئے کوئی بھی فطرت یہ عذر نہ پیش کرے گی اور جب یہ کلام مکذبین کا ہے تو جو ان پر آفت آئے گی وہی اس پر بھی آئے گی۔ ۳۔ جو رب کی تیسری صورت یہ ہے کہ ایسے شخص سے پیغمبر یہ کہے گا کہ اللہ سے ایسی بات کرنا میرے شایاں نہیں ۔ بلکہ میرے ذمے تو صرف اس کی رسالت کا پہنچانا ہے۔ میرے ذمے وہ ہے جو لگایا گیا اور تیرے ذمے وہ ہے جو لگایا گیا۔ میرے ذمہ ابلاغ رسالت ہے، سو وہ میں نے کر دی۔ ۳۔ چوتھا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ پیغمبر یہ کہے: نہ مجھے اور نہ کسی اور کو یہ زیبا ہے کہ وہ رب تعالیٰ سے یہ کہے کہ تو نے میرے اندر یہ کیوں نہ پیدا کیا اور وہ کیوں نہ پیدا کیا۔ کیونکہ لوگوں کے اقوال دو قسم پر ہیں ۔ ایک یہ کہ: حکمت کوئی نہیں ، بس نری مشیئت ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہتا ہے حکم دے دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ: اللہ کے حکم میں حکمت ہے۔ لہٰذا وہ جو کرتا ہے مبنی پر حکمت ہونا ہے اور وہی ترک کرتا ہے جس میں حکمت نہیں ہوتی۔ تو جب بات یہ ہے تو بندے کو اللہ کے سامنے ایسی بات کہنا روا نہیں ۔ اسی لیے رب تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَo﴾ (الانبیاء: ۲۳) ’’اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھاجاتا ہے۔‘‘ ۵۔ پانچواں جواب یہ ہے کہ: وہ پیغمبر یہ کہے گا کہ: کسی فعل پر تیری اعانت کرنا، یہ اس کا فعل ہے، اور وہ جو فعل بھی کرتا ہے کسی حکمت پر مبنی ہوتا ہے، اور جو نہیں کرتا وہ حکمت نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کرتا، اور رہی نفسِ طاعت تو وہ تیرا فعل ہے جس کی مصلحت تجھے ہی ملے گی، اور اگر وہ اس باب میں تیری اعانت کرتا ہے تو یہ اس کا تجھ پر فضل ہوگا، اور اگر وہ نہیں کرتا تو یہ اس کا تیرے ساتھ عدل ہوگا۔ پس اس کا تجھے مکلف اس کی کسی حاجت کی وجہ سے نہیں ۔ جو وہ تیری اعانت کا محتاج بھی ہو۔ جیسا کہ آقا اپنے غلام کو اپنی مصلحت کے لیے امر دیتا ہے۔
[1] صحیح البخاری: ۶؍ ۱۱۱۔ کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الشعراء، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ مع اختلافِ الفاظ۔ [2] صحیح البخاری: ۸؍ ۱۰۱ ۔ ۱۰۲۔ کتاب الرقاق، باب الانتہاء عن المعاصی عن ابی موسٰی الاشعری رضی اللّٰہ عنہ ۔