کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 433
یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری شروع ہونے سے پہلے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو علم عطا کیا تھا۔ پھر جب آپ بیمار ہوگئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ نماز پڑھائیں ۔ تو آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال تک امامت کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔بالفرض اگر یہ تسلیم کرلیاجائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری سے پہلے آپ کو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد کے لیے جانے کاحکم دیا تھا ۔تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم دینا ؛ حالانکہ آپ نے بیماری میں بھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو روانگی کی اجازت دے رکھی تھی؛ تو یہ بعد والا حکم پہلے حکم کے لیے ناسخ ہوگا؛ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت منسوخ ہوگئی۔تو یہ کہنا کیسے روا ہوسکتا ہے خصوصاً جب کہ آپ پر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر ہی نہیں کیا گیا تھا؟
مزید برآں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہ نہیں تھی کہ کسی سریہ کے لیے یا پھر کسی غزوہ کے لیے نام لیکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو متعین کریں ۔ لیکن آپ مطلق طور پر ترغیب دیا کرتے تھے۔ توصحابہ کرام کو کبھی علم ہوتا تھا کہ آپ نے نام لیکر کسی کو اپنے ساتھ جانے کے لیے متعین نہیں کیا ‘لیکن خروج برائے جہاد کی ترغیب دی ہے ؛ جیسا کہ غزوہ غابہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی تھی [1]اور کبھی کبھار بعض لوگوں کو ان کے خاص احوال کی وجہ سے متعین کرتے تھے ۔ جیسا کہ غزوہ بدر کے موقع پر آپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ لوگ نکلیں جن کے پاس سواری ہو۔ اسی وجہ سے بہت سارے مسلمان آپ کے ساتھ نہ جاسکے۔ اور غزوہ سویق کے موقع پر آپ نے اعلان فرمایا تھا کہ : ’’ صرف وہی لوگ جہاد کے لیے نکلیں جو کہ احد میں شریک ہوئے تھے ۔‘‘
بسااوقات عام کوچ کا حکم ہوتا تھا ؛ جس میں کسی کو پیچھے رہنے کی اجازت نہ ہوتی تھی جیسا کہ تبوک کے موقع پر ہوا۔
[1] ہے : ’’ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !الحمد للہ کہ آپ کو افاقہ ہے ۔‘‘آج بنت خارجہ کی باری ہے؛ مجھے اجازت دیجیے ؛ تو آپ نے اجازت دیدی۔ تو آپ سنح کے مقام پر تشریف لے گئے۔ اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ معسکر میں واپس چلے گئے۔ اور اپنے ساتھیوں کو آواز دیکر لشکر میں پہنچنے کا حکم دیا۔ ابھی آپ جرف سے نکلنا ہی چاہتے تھے کہ ان کی والدہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کا قاصد آگیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوداع ہونے والے ہیں ۔ تو آپ واپس مدینہ تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہما بھی تھے۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ کی آخری گھڑیاں تھیں ۔‘‘مزید دیکھو: سیرت ابن ہشام ۴؍ ۲۹۱۔
ابن ہشام نے ’’السیرۃ ۳؍ ۲۹۳ ‘‘ پر کہا ہے: ’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ پہنچے ابھی چند د ن ہی گزرے تھے کہ عیینہ بن حصین الفرازی نے بنو غطفان کے گھڑسواروں کے ساتھ مدینہ کے قریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر دھاوا بول دیا۔ یہاں پر بنو غفار کا ایک آدمی اور اس کی بیوی تھے؛ انہوں نے مرد کو قتل کردیا؛ اور اس کی بیوی اور اونٹوں کو ہانک کر لے گئے ۔ انہیں سب سے پہلے حضرت سلمہ بن عمرو ابن الاکوع رضی اللہ عنہ نے دیکھا؛ وہ دوڑ کر ان تک پہنچ گئے؛ آپ ان پر تیر برساتے اور ساتھ چیخ کر آوازیں لگاتے۔ آپ کی چیخ کی آواز مدینہ طیبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی تو آپ نے منادی کرادی؛ گھڑ سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ لوگ جمع ہوگئے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حضرت سعد بن زید کو امیرمقرر کیا؛ اورخود ان لوگوں تک پہنچ گئے۔ یہ ایک تفصیلی واقع ہے۔ اسے غزوہ ذی قرد بھی کہا جاتا ہے۔‘‘دیکھو: زاد المعاد ۳؍ ۳۷۸۔