کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 432
ایسے ہی فتح مکہ کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی باتفاق علماء ثابت ہے۔آپ کی بہن ام ہانی رضی اللہ عنہا نے اپنے دونوں دامادوں کو پناہ دے رکھی تھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ انہیں قتل کرنا چاہتے تھے۔تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی : یارسول اللہ ! میرا بھائی ان آدمیوں کو قتل کرنا چاہتا ہے جنہیں میں نے پناہ دے رکھی ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ اے ام ہانی! جس کو تو نے پناہ دی ؛ ہم بھی اس کو پناہ دیتے ہیں ۔‘‘ اس موقع پر مدینہ میں نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ ۔ ایسے ہی خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا۔ آپ کی آنکھیں دکھ رہی تھیں ۔آپ نے [ان کی آنکھوں میں لعاب ڈالا ] اور پھر انہیں جھنڈا عطا کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر فتح عطا کی۔ اس وقت بھی مدینہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا۔ ایسے ہی حنین اور طائف کے غزوات میں شریک رہ چکے تھے۔حجۃ الوداع کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے واپس تشریف لائے تھے ؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں اکھٹے ہوئے اور حج کیا۔ اور ان دنوں آپ دونوں میں سے کوئی ایک بھی مدینہ میں نہیں تھا۔ [آپ کی عدم موجودگی میں دیگر صحابہ مدینہ میں آپ کے قائم مقام تھے]۔ رافضی اپنی جہالت کی وجہ سے ایسا جھوٹ بولتے ہیں جو کہ سیرت کی ادنی معرفت رکھنے والے انسان پر بھی مخفی نہیں رہتا ۔ [حضرت اسامہ بن جیش کی امارت :] [اعتراض ]: شیعہ کہتا ہے:’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر مقرر فرمایا ؛ اس لشکر میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں موجود تھے ۔‘‘ [جواب] :یہ ایسا جھوٹ ہے جو حدیث کے کسی ادنی طالب علم پر بھی مخفی نہیں ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیش اسامہ میں شامل ہی نہ تھے۔ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز مرض ہی سے ان کو امامت ِ نماز کا منصب تفویض فرمایا تھا؛ اور وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ منصب آپ کے ہی پاس رہا۔[1]
[1] مقریزی نے إمتاع الاسماع ۱؍۵۳۶ پر لکھا ہے: ’’یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بروز پیر چھبیس صفر سن گیارہ ہجری کو غزوہ روم کے لیے تیاری کا حکم دیا۔پھر اگلے دن منگل کوحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کوبلایا تاکہ انہیں لشکر کی سربراہی تفویض کی جائے۔ تو آپ لشکر لیکر نکلے اور جرف کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ لوگ بھی نکلے؛ مہاجرین اولین اور انصار میں سے کوئی اس غزوہ سے پیچھے نہیں رہا؛ حضرت عمربن خطاب ؛ حضرت ابو عبیدہ ؛ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم جیسے لوگ شریک ہوئے ۔ بعض مہاجرین نے ان کی امارت پر اعتراض کیا؛ کہ اس چھوٹے سے نو خیز لڑکے کو مہاجرین اولین پر امیر بنایا جارہا ہے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر غصہ ہوئے۔ اور اس سلسلہ میں لوگوں میں خطبہ دیا۔ پھر آپ اپنے گھر میں داخل ہوگئے۔ یہ بروز ہفتہ دس ربیع الاول کی بات ہے۔جو مسلمان لشکر کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوئے تھے؛ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الوداعی ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ان میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جیش اسامہ کو روانہ کیا جائے ۔ پس لوگ لشکر گاہ کی طرف چل پڑے اتوار کی رات وہاں پر گزاری ۔ اتوار کے دن حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ اور پھر اپنے معسکر کی طرف لوٹ گئے۔ پیر کے دن دوپہر کو آپ وہاں پر تھے۔ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ افاقہ تھا۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ تو آپ نے فرمایا:’’ صبح اللہ کا نام لیکر چل پڑو۔‘‘حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے الوداع ہوئے تو آپ کو افاقہ تھا۔‘‘مقریزی نے کہا(