کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 430
چل پڑے ؛ اور آپ کی خدمت میں یوں عرض گزار ہوئے : کیا آپ مجھے بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑے جارہے ہیں ؟یہ بھی کہاگیا ہے کہ بعض منافقین نے آپ پر طعنہ زنی کی تھی ؛ اور یہ کہا تھا کہ : آپ کو اس لیے پیچھے چھوڑ گئے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بغض رکھتے تھے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار دوسرے لوگوں کو بھی مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا تھا؛ اوروہ لوگ بھی تعداد میں زیادہ ہوا کرتے تھے ۔ اور ان لوگوں سے افضل ہوا کرتے تھے جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نائب بنایا گیاتھا۔تو ثابت ہوا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجود گی میں ایک مخصوص گروہ پر کسی کو نائب مقرر کرنا تھا۔ظاہر ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپکی امت پر استخلاف مطلق نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ان اصحاب میں سے کسی کو بھی خلیفہء رسول نہیں کہا گیا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کویہ خطاب دیاجائے تو دوسرے جو صحابہ وقتاً فوقتاً مدینہ میں نائب بنتے رہے ہیں پھروہ بھی اس خطاب کے مستحق ہیں ۔توپھر یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نہ ہوئی۔
نیز یہ بات بھی کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جو انسان کسی رسول کے مرنے کے بعدخلیفہ بنتا ہے وہ لوگوں میں سے افضل ترین انسان ہوتا ہے ۔ جب کہ دوسرا وہ انسان ہے جو دشمن سے جہاد کی مہم کے دوران خلیفہ بنتا ہے ‘ اس کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام لوگوں سے افضل ہو۔ بلکہ عادتاً دیکھا گیا ہے کہ دوران جہاد جو انسان افضل ہوتا ہے ؛اسے جہادی ضرورت کے پیش نظر ساتھ لے جایا جاتا ہے۔ بخلاف اس انسان کے جسے عورتوں اور بچوں پر نائب مقرر کیا جائے۔ اس لیے کہ جہاد میں کام آنے والا انسان اس مہم میں ساتھ شریک ہوتا ہے۔ اس کا مقام بچوں پر نائب بن کر پیچھے رہنے والے کی نسبت زیادہ بڑا ہوتا ہے۔
اس لیے کہ نائب بن کر پیچھے رہنے والے کا فائدہ اس انسان کی طرح نہیں ہے جو جہاد میں ساتھ شریک ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ہارون علیہ السلام سے تشبیہ صرف اصل استخلاف میں دی تھی۔[1]کمال
[1] صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ تبوک(حدیث:۴۴۱۶)، صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ (حدیث: ۲۴۰۴)سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی موت کے بعد سیدنا یوشع آپ کے قائم مقام قرار پائے تھے نہ کہ سیدنا ہارون علیہ السلام ، مزید براں یہ امر قابل غور ہے کہ ہارون نبی تھے اور علی رضی اللہ عنہ نبی نہ تھے۔ ہارون سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی تھے اور علی رضی اللہ عنہ ان کے بھائی نہ تھے۔ مذکورہ فرق و امتیاز کے علاوہ اب یہ بات باقی رہی کہ غزوۂ تبوک پر جاتے وقت آپ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا تھا جس طرح سیدنا موسیٰ نے کوہِ طور کو جاتے وقت سیدنا ہارون علیہ السلام کو اپنا قائم مقام مقرر کیا ۔ اصل وجہ مشابہت و مماثلت صرف یہی امر ہے، خاص مدینہ پر استخلاف کا شرف دوسرے لوگوں کو بھی حاصل ہوا مگر کسی نے بھی ان کو نبی کریم کا خلیفہ عام تصور نہ کیا۔ لطف یہ ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی اس غلطی میں کبھی مبتلا نہ ہوئے۔ علاوہ ازیں حدیث نبوی’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْن‘‘ محدثین کے نزدیک متنازع فیہ ہے، بعض اسے صحیح کہتے ہیں اور بعض ضعیف(۱) امام ابو الفرج ابن الجوزی رحمہ اللہ اس کو موضوع قرار دیتے ہیں ۔ نیز یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو حاکم مدینہ مقرر کیا تو انھوں نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا’’ کیا آپ مجھے عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ۔‘‘ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مطمئن کرنے کے لیے فرمایا: ’’اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْن‘‘ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ استخلاف ان کے لیے موجب مدح و منقبت ہوتا تو جیسے کہ شیعہ کا خیال ہے تو اس بات پر اظہار ناراضگی کرنے کی بجائے ان کو خوش ہونا چاہئے تھا، حالانکہ یہ بات سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی، اہل سنت وشیعہ کے مابین جملہ اختلافی مسائل میں شیعہ کا طرز فکر ہمیشہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اورپسران علی رضی اللہ عنہ سے مختلف ہوتا ہے، اگر کوئی شخص سعی کامل کو کام میں لا کر ایسے مسائل تلاش کرنا چاہے، جن میں شیعہ نے علماء اہل بیت کی مخالفت کی ہے تو ان سے ایک بڑی کتاب مرتب کی جا سکتی ہے۔