کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 43
یہی حکم ان امور کا بھی ہے جو شعور کی جنس میں سے ہیں ۔ جیسے حسل، علم، سمع، بصر، شم، ذوق اور لمسن وغیرہ۔ پس یہ شعور و ادراک یہ ارادہ محبت اور طلب پر سابق ہوتے ہیں ۔ ہر زندہ اس فطرت پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ مناسب و مفید کی محبت رکھتا ہے اور مکروہ و مضر سے بعض رکھتا ہے۔ لہٰذا جب وہ جب مناسب و نافع چیز کا تصور کرتا ہے تو اس کا ارادہ بھی کرتا ہے اور اسے سے محبت بھی کرتا ہے، اور جب وہ کسی مضر شے کا تصور کرتا ہے تو اس سے بھاگتا ہے اور اس سے نفرت کرتا ہے۔ لیکن یہ تصور کبھی علم تو کبھی ظن و تخمین ہوتا ہے۔ لہٰذا جب اسے معلوم ہو جائے کہ اس کی مراد نافع ہے، مصلحت ہے اور مناسب ہے تو وہ حق و ہدایت پر ہوتا ہے، اور جب اسے اس بات کا علم نہیں ہوتا تو وہ ظن اور خواہش نفس کا پیروکار ہوتا ہے، اور جب ان کے پاس یہ علم آ جاتا ہے کہ اس میں تو کوئی مصلحت نہیں تو وہ حق سے منہ موڑنے کے لیے کسی ضد کی طرح تقدیر کو حجت بناتا ہے۔ ناکہ حق پر اعتماد کرنے کے لیے۔ لہٰذا اپنے ظاہر و باطن میں تقدیر کو وہی حجت بناتا ہے جسے اس بات کا علم نہ ہو کہ وہ حق پر ہے۔ تو جب بات یہی ہے تو پھر رسولوں کے خلاف تقدیر کو حجت بنانے والا اس بات کا مضر ہوگا کہ اس کے پاس اپنے موقف کی کوئی دلیل نہیں ، اور وہ بغیر علم کے کلام کر رہا ہے، اور ایسا آدمی اپنی بات میں باطل پر ہوتا ہے، اور جو بغیر علم کے حجت لائے اس کی حجت مردود ہوتی ہے۔ پھر یا تو وہ جاہل ہوتا ہے تو ایسا آدمی علم سے آراستہ ہو، اور وہ حق جاننے کے باوجود و خواہش نفس کا پیرو ہوتا ہے تو اس کے ذمہ ہے کہ حق پر چلے اور خواہش ترک کر دے۔ پس واضح ہو گیا کہ تقدیر کو حجت بنانے والا بے علم اور خواہشِ نفس کا پیرو ہوتا ہے، اور بھلا اس سے بڑھ کر بے راہ کون ہوگا جو اللہ کی ہدایت کے بغیر خواہش کا پیرو ہو۔ اب اس مقام پر جواب کی کوئی صورتیں ہیں : ۱۔ ایک یہ کہ یہ انقطاع ہے۔ اگر تقدیر کو حجت بنانا روا ہو۔ البتہ جب تقدیر کو دلیل بنانا باطل اور ایسا باطل ہے جو سب فطرتوں اور عقلوں میں لازم جاگزیں ہے تو سرے سے یہ سوال کرنا ہی لائقِ التفات نہیں ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بات لوگوں کی عقل و فطرت میں راسخ ہے کہ جس سے کسی فعل اختیاری کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو اسے ایسی دلیل لانا روا نہیں ہوتا، اور جو دوسرے سے اپنا قرض مانگے تو اسے جواب میں یہ کہنا جائز نہ ہوگا کہ جب تک اللہ مجھ میں دینے کا داعیہ پیدا نہ کرے گا میں قرض نہ دوں گا۔ اس طرح سے کا خریدا ثمن کے مطالبہ پر یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب تک اللہ مجھ میں قدرت اور ادا کا داعیہ وغیرہ پیدا نہ کرے گا میں ثمن نہ دوں گا۔ یہ وہ امر ہے جس پر رب تعالیٰ نے ہر کافر و مسلم کو پیدا کیا ہے۔ چاہے وہ تقدیر کو مانتا ہو یا اس کا منکر ہو۔ تو جب عقل بدیہہ کے نزدیک اس اعتراض کا فاسد ہونا معروف ہے تو کسی کو روا نہیں کہ وہ اس بات کو پیغمبروں کے خلاف پیش کرے۔ ۲۔ دوسرا یہ کہ: رسول ایسے کافر سے یہ کہے گا: میں تمہیں ڈرانے والا ہوں ۔ اگر تو نے میرے امر کا امتثال کیا تو سعادت نجات پا جائے گا، اور نہ کرنے کی صورت میں سزا دیا جائے گا۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑی پر چڑھ کر یہ