کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 428
پہلے معنی کی بناء پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، کیوں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ ان کے قائم مقام ہوئے اور آپ دوسروں کی نسبت اس منصب کے لیے موزوں تر تھے۔ لہٰذا آپ خلیفہ قرار پائے اور دوسرا کوئی شخص یہ مقام حاصل نہ کر سکا۔ شیعہ اور دیگر فرقوں میں سے کوئی بھی اس مسلمہ صداقت کا منکر نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ قرار پائے تھے آپ نماز پڑھاتے۔[1] شرعی حدود قائم کرتے اور صلح کی بنا پر حاصل کردہ مال مسلمانوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔علاوہ ازیں آپ کفار سے جہاد کرتے،عمّال و امراء مقرر کرتے اور دیگر سیاسی امور انجام دیا کرتے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بالاتفاق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہ جملہ امور انجام دیا کرتے تھے۔ لہٰذا بلا نزاع آپ خلیفہ رسول تھے اور اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔[2]
اہل سنت والجماعت کہتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا؛ اور آپ ہی اس خلافت کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔ جب کہ [پرانے ]شیعہ کہتے تھے: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلافت کے زیادہ حق دارتھے ۔ لیکن حضرت ابو بکر [جب خلیفہ بن ہی گئے تو آپ ] کی خلافت درست ہے۔ان کا کہنا ہے کہ : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جائز نہیں تھا کہ وہ خلیفہ بنتے ؛ مگر جب آپ بالفعل خلیفہ بن گئے تو اب اس میں تنازع کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اور اب آپ اس نام کے مستحق ہیں ۔ اس لیے کہ خلیفہ اسی کو کہتے ہیں جو دوسرے کا قائم مقام بنے ۔
دوسرے معنی کی بیناد پر : خلیفہ وہ ہے جسے دوسرا اپنا قائم مقام مقرر کرے ۔جیسا کہ بعض اہل سنت اور بعض شیعہ اس دوسرے معنی کواختیار کرتے ہیں ۔اہل سنت و الجماعت میں سے جن لوگوں نے یہ معنی اختیار کیا ہے ‘ وہ اس معنی کی بناء پر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نص جلی یا خفی کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا۔جیسا کہ شیعہ جوکہ نص سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ‘ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ آپ نص جلی کی روشنی میں خلیفہ
[1] سیدنا علی رضی اللہ عنہ دیگر لوگوں کی طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھا کرتے تھے۔
[2] خلافت صدیقی میں جو مال بنا بر مصالحت بلاقتال و جدال بیت المال میں آیا تھا اس میں سے بنی حنیفہ کے قبیلہ کی ایک لونڈی بھی تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے شرعی حکم کے مطابق حق ملکیت حاصل کرکے اسے اپنی لونڈی بنا لیا اور اس کے بطن سے ایک عالم باعمل اور صالح بیٹا محمد بن علی بن ابی طالب تولّد ہوا جو بعد میں محمد بن حنفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اگر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی رائے میں سیدنا ابوبکر کی خلافت غیر شرعی ہوتی تو وہ لونڈی کو اپنے لیے حلال نہ سمجھتے۔ حرام و حلال عورتوں کے مابین فرق و امتیاز ایک طے شدہ بات ہے، جس میں کسی کا اختلاف نہیں ۔ ایک مشہور ترین شیعہ عالم سید عبد اﷲ بن حسن سُویدی نے ماہ شوال ۱۱۵۶ھ میں جب اکابر علماء شیعہ کی موجودگی میں اس سے احتجاج کیا تھا تو سب خاموش ہو گئے اور کوئی بھی جواب نہ دے سکا۔(دیکھیے۔ رسالہ مؤتمر النجف،ص:۳۱۔۳۲) اگر شیعہ حق کے طالب ہوتے اور فتنہ پردازی ان کا مقصد نہ ہوتا تو مذکورہ دلیل اور دیگر سینکڑوں دلائل و براہین ان کے لیے وجہ اطمینان ہوتے۔ مگر شیعہ کا مقصد وحید مسلم معاشرہ میں شور و شر پیدا کرنا، افکار باطلہ کی تشہیر دین حنیف کی تحریف و تغییر اور شریعت کے مآخذ و مصادر کی تبدیلی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شیعہ کا وجود انسانیت کے لیے ایک عظیم آفت سے کم نہیں ۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ باطل کے پرستار ہیں اور باطل فنا پذیر ہوتا ہے بلکہ جو چیز بھی کذب و افترا پر مبنی ہو وہ بے کار اور عبث ہے۔