کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 42
انہوں نے کہا کہ کیا یہ اللہ نے ہم پر مقدر نہ کیا تھا؟ اگر وہ چاہتا تو ہم نہ کرتے۔
تو ان کو یہ جواب ہے کہ تمہاری کوئی حجت نہیں اور نہ تمہارے کوئی عذر ہی بتلائے کہ جو تم نے کیا وہ نیکی اور خوبی تھا۔ یا یہ کہ تم اس میں معذور تھے۔ لہٰذا تمہارا یہ کلام غیر مقبول ہے، اور جو بیان اور اعذار گزرے ان کی رو سے تم پر حجت تمام ہو چکی۔ اگر حاکم کچھ لوگوں کو ایک رقم دے کر دوسرے شہر بھیجے اور وہ اسے رستے میں کسی ویرانے میں پھینک دیں جہاں کوئی نہ ہو، ادھر حاکم ہی کا ایک دستہ سفر جہاد میں ادھر آ نکلے اور وہ اس مال کو نقطہ سمجھ کر اٹھا لیں اور سنبھال لیں تو حاکم کو پہلے لوگوں کو اس بات پر سزا دینا روا ہوگا کہ انہوں نے حکم میں کوتاہی کی اور مال کی حفاظت نہ کرتے ہوئے اسے ضائع کر دیا۔
پھر اگر وہ یہ عذر کریں کہ آپ ہمیں بتا دیتے کہ آپ پیچھے ایک دستہ بھی روانہ کر رہے ہیں تو اس مال کی خاطر خواہ حفاظت کرتے اور حاکم انہیں یہ جواب دیں کہ یہ بات مجھ پر لازم نہ تھی۔ ہاں اگر میں ایسا کر دیتا تو یہ ایک گو نہ تمہاری امتثالِ امر میں اعانت ہوتی۔ لیکن مال کی حفاظت پھر بھی تم لوگوں کے ذمے تھی۔ جیسے امانتوں کی حفاظت ذمہ ہوا کرتی ہے تو اس ساری گفتگو حجت حاکم کی ہوتی اور وہ انہیں سزا دینے کی صورت میں ظالم بھی ٹھہرے گا۔ چاہے اس نے انہیں آگاہ نہ کر کے ان کی اعانت نہ بھی کی ہو تب بھی۔ البتہ مصلحت دونوں کے بھیجنے میں تھی۔
بلند مثال اللہ کے لیے ہے۔ وہ اپنے ہر فعل حکیم اور عادل ہے۔ اس کی قدرت و مشیئت سے کچھ خارج نہیں ۔ لہٰذا جب وہ بندوں کو خود انہی کی مصلحت کے لیے حدود کی حفاظت اور فرائض قائم کرنے کا حکم دیتا ہے تو یہ اس کا بندوں پر احسان ہے اور انہیں ان کی نفع رساں باتوں کا علم دینا ہے، اور جب اس نے دوسرے امور کو پیدا کیا اور بندوں نے ان دوسرے امور کی وجہ سے اس کے حدود و فرائض میں تفریط و اعتداء سے کام لیا جن کی وجہ سے انہیں ضرر بھی حاصل ہوا اور اس دوسری مخلوق کی پیدائش اس کی حکمت و مصلحت تھی تو وہ ان دونوں تخلیقوں میں عادل و حکیم ہے۔ چاہے اس نے پہلی مخلوق کی ایسی زیادتی کے ساتھ مدد نہ بھی کی ہو جس کی وجہ سے وہ تفریط و عدوان سے محفوظ رہ سکیں ۔ بالخصوص جب وہ جانتا بھی ہے اگر وہ اس زیادتی کو پیدا کرتا ہے تو اس سے زیادہ راجح مصلحت کا فوت ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ ضدین یکجا نہیں ہوا کرتیں ۔
غرض یہاں یہ بتلانا مقصود ہے کہ تقدیر کو دلیل بنانا ایک بیمار دلیل ہے۔ کیونکہ اس میں علم کی رو سے بیان کردہ حق کی عدم اتباع ہے۔ کیونکہ انسان زندہ، حساس اور متحرک بالارادہ ہے۔
اسی لیے ارشاد نبوی ہے کہ: ’’سب سے سچے نام حارث اور ہمام ہیں ۔‘‘ [1]
حارث یہ کا سب و عامل کو کہتے ہیں اور ہمام بہت زیادہ ارادہ کرنے والے کو، اور ہم یہ قصد و ارادہ کے بالکل آغاز کو کہتے ہیں ۔ لہٰذا ہر انسان حارث بھی ہے اور ہمام بھی، اور متحرک بالارادہ بھی ہے، اور یہ حس و شعور کے بعد ہوتا ہے۔ کیونکہ ارادہ مراد کے شعور پر سبوق ہوتا ہے۔ لہٰذا محبت، شوق، طلب، اختیار اور ارادہ وغیرہ کا تصور شعور کے بعد ہی ہوتا ہے، اور
[1] سنن ابی داؤد: ۶؍ ۳۹۴۔ کتاب الادب، باب فی تعبیر الاسماء۔