کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 419
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ وہ ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ شادی کرکے آپ کو دکھ پہنچانا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام ذاتی غرض پر مبنی تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے ۔ مذکورہ بالا واقعات اس بات کے زندہ گواہ ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذا سے متعلق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہا کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل مذمت کا زیادہ استحقاق رکھتا ہے، اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے ایسا کیا تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذاتی غرض کی بنا پر ۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہجرت کی تھی۔ ظاہر ہے کہ کسی عورت سے نکاح کرنے کی نیت سے ہجرت کرنے والا، ان کا ہم پلہ کیسے ہو سکتا ہے۔[1]
بے شک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ایذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باعث رنج و ملال ہے،بشرطیکہ وہ بات حکم الٰہی کے خلاف نہ ہو۔ جب کسی بات میں حکم الٰہی موجود ہو تو اس کی انجام دہی ضروری ہے، قطع نظر اس سے کہ یہ امر کسی کے لیے موجب اذیت ہو۔ اﷲ کی اطاعت کرتے ہوئے باعث اذیت وہ بات ہو گی جو اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے منافی ہو۔ اس کی مثال مندرجہ ذیل حدیث نبوی ہے:
’’ جس شخص نے میری اطاعت کی، اس نے اﷲ کی اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی، جس نے میری نافرمانی کی اس نے اﷲ کی حکم عدولی کی، اور جس نے میرے امیر کے حکم
[1] اہل سنت کی بلند اخلاقی کی اعلی مثال ہے کہ وہ ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عزم نکاح اور اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شدید ناراضگی کا واقعہ شاذونادر ہی ذکر کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس ضمن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کے منبر پر جو شہرۂ آفاق خطبہ دیا وہ قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتب حدیث کے اوراق میں محفوظ ہے۔ دوسری جانب شیعہ کا یہ حال ہے کہ تمام تاریخی اَدوار میں انھوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلاف شور وشغب بپا کیے رکھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جرم اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایسے حکم کو نافذ کرنے کی غلطی کی جو انھوں نے بذات خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ علاوہ ازیں کثیر صحابہ اور خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی براہ راست اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سن چکے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہایت موزوں طریقہ سے امر نبوی کی تکمیل فرمائی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دیگر اہل بیت کو اس جاگیر سے اپنی ضروریات پوری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ اور جو باقی رہ جاتا تھا اس کو اسوۂ نبوی کے مطابق رفاہ عام کے کاموں پر صرف کرنے کی ہدایت کی۔ شیعہ کے شوروشغب اور دروغ گوئی کا نتیجہ ہے کہ لوگ مسئلہ فدک کی تفصیلات سے آگاہ ہیں ، اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عزم نکاح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمہ کس حد تک برہم ہوئے تھے، یہ دونوں واقعات( مسئلہ فدک اور ابوجہل کی بیٹی سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا عزم نکاح ) جملہ اختلافی مسائل میں اہل سنت و شیعہ کے مابین ایک عمدہ معیار کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس سے عیاں ہوتا ہے کہ صحابہ و اہل بیت کے بارے میں فریقین کاموقف کیا ہے۔ یہ دونوں واقعات اس بات کے شاہد عدل ہیں کہ اہل سنت صحابہ و اہل بیت دونوں کو عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بخلاف ازیں شیعہ کے دل بغض صحابہ سے لبریز ہیں اور اہل بیت کی محبت کے بارے میں ان کے سب دعوے بے بنیاد ہیں ، اہل بیت کی محبت شیعہ میں صرف اس حد تک پائی جاتی ہے کہ ان کی قبروں کو بت بنا کر ان کی پرستش کرتے رہیں اور اس طرح صنم پرستی کے دور کی یادیں تازہ کردیں ۔دیگر بہنوں کو چھوڑ کر صرف سیدہ فاطمہ سے اظہار محبت کذب و دورغ پر مبنی ہے۔ علاوہ ازیں شیعہ ،بعض بنی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت کرتے ہیں اور بعض سے بغض و عناد رکھتے ہیں ۔ مگر حق و صداقت کسی کے چھپائے چھپتی نہیں اور اس کا نور ظاہر ہو کر رہتا ہے۔ ﴿وَاللّٰہُ یُحِقُّ الْحَقَّ وَ ہُوَ یَہْدِی السَّبِیْل﴾