کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 416
شیعہ کی پیش کردہ حدیث پر نقد و جرح:
شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’سبھی نے روایت کیا ہے کہ :آپ نے فرمایا:’’ فاطمہ میرا جگر پارہ ہے۔جو کوئی اسے تکلیف دیتا ہے وہ مجھے تکلیف دیتا ہے ‘ اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی ۔‘‘یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ روایت نہیں کی گئی۔ احادیث میں مذکور الفاظ اس سے مختلف ہیں ، جس حدیث میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
’’بنو ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنی بیٹی کا نکاح کرنے کی اجازت طلب کی ہے، میں ہر گز اس کی اجازت نہ دوں گا۔‘‘ یہ الفاظ آپ نے تین مرتبہ دہرائے۔ پھر فرمایا:’’ فاطمہ میرا جگر پارہ ہے،مجھے بھی وہ چیزشک میں ڈالتی ہے جو اسے شک میں ڈالتی ہے۔اور جو چیز اسے ایذا دیتی ہے اس سے مجھے بھی دکھ پہنچتا ہے۔‘‘البتہ یہ ممکن ہے کہ علی رضی اللہ عنہ میری بیٹی کو طلاق دے کر ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرلے۔‘‘ ایک روایت میں یوں ہے: ’’مجھے ڈر ہے کہ فاطمہ کہیں دینی ابتلاء میں نہ پڑجائے۔‘‘ پھر آپ نے اپنے ایک داماد(ابوالعاص) کا ذکر کرکے اس کی تعریف فرمائی اور کہا:’’ اس نے جب بھی بات کی سچ بولا۔ اور جب وعدہ کیا تو اسے پورا کر دکھایا۔میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال تو نہیں کرتا۔ مگر اﷲ کی قسم ! جگر گوشۂ رسول اور اﷲ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں ۔‘‘[1]
یہ حدیث حضرت علی بن حسین نے مسور بن مخرمہ سے روایت کی ہے۔[2]حدیث بیان کرنے کا سبب خود روایت میں موجود ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لانا چاہتے تھے۔ بنا بریں بیان کردہ سبب کو حدیث سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ حدیث کے الفاظ واضح ہیں :
[1] صحیح بخاری۔ کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، باب ذکر اصہار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح:۳۷۲۹،۵۲۳۰) و صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل فاطمۃ رضی اللہ عنہا (ح۲۴۴۹) تاہم اس کے سیاق و سباق میں اختلاف ہے۔
[2] یہ پوری حدیث صحیح بخاری[ح:3110] میں اس طرح ہے: حضرت علی بن حسین [زین العابدین رحمہ اللہ] نے بیان کیا کہ جب ہم سب حضرات حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یزید بن معاویہ کے یہاں سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے ملاقات کی اور کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے حکم فرما دیجئے ۔[زین العابدین نے بیان کیا کہ] میں نے کہا : مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر مسور نے کہا تو کیا آپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار عنایت فرمائیں گے ؟ کیونکہ مجھے خوف ہے کہ کچھ لوگ [بنو امیہ] اسے آپ سے نہ چھین لیں ۔ اور اللہ کی قسم!اگر وہ تلوار آپ مجھے عنایت فرما دیں تو کوئی شخص بھی جب تک میری جان باقی ہے اسے چھین نہیں سکے گا ۔ پھر مسور رضی اللہ عنہ نے ایک قصہ بیان کیا کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کی موجودگی میں ابوجہل کی ایک بیٹی[جمیلہ نامی]کو پیغام نکاح دے دیا تھا ۔ میں نے خود سنا کہ اسی مسئلہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسی منبر پر کھڑے ہو کر صحابہ کو خطاب فرمایا ۔ میں اس وقت بالغ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ فاطمہ مجھ سے ہے ۔ اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ [اس رشتہ کی وجہ سے]کسی گناہ میں نہ پڑ جائے کہ اپنے دین میں وہ کسی فتنہ میں مبتلا ہو ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان بنی عبد شمس کے ایک اپنے داماد [عاص بن ربیع] کا ذکر کیا اور دامادی سے متعلق آپ نے ان کی تعریف کی آپ نے فرمایا کہ انہوں نے مجھ سے جو بات کہی سچ کہی جو وعدہ کیا اسے پورا کیا ۔ میں کسی حلال [یعنی نکاح ثانی] کو حرام نہیں کر سکتا اور نہ کسی حرام کو حلال بناتا ہوں ۔ لیکن اللہ کی قسم ! رسول اللہ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک ساتھ جمع نہیں ہوں گی۔‘‘