کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 414
جب یہ جائز ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ یہ مطالبہ پورا نہ کریں اور اس کا پورا کرنا آپ پر واجب بھی نہ ہو؛ تو اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ وہ خلیفہ رسول سے کوئی چیز طلب کریں اور آپ اس مطالبہ کی تکمیل سے قاصر رہیں ۔ خصوصاً جبکہ ہم اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا معصوم نہیں اور ممکن ہے آپ ایسا مطالبہ کریں جس کی تکمیل ضروری نہ ہو۔ جب مطالبہ کا پورا کرنا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر واجب نہ ہوا تو ایک غیر واجب امر کے ترک کرنے پر آپ ہر گز قابل مذمت نہیں ، یہ امر مباح ہی کیوں نہ ہو۔جب ہم یہ فرض کر لیں کہ اس مطالبہ کا پورا کرنا سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے مباح بھی نہ تھا تو اس کی عدم تکمیل پر آپ مدح کے قابل ہوئے نہ کہ مذمت کے مستحق اوریہ کبھی معلوم نہیں ہوسکا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور آپ کے بعد کسی کا حق ادا کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔
شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی تھی کہ:’’ انھیں رات کو دفن کیا جائے تاکہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان کا جنازہ نہ پڑھے۔‘‘ صرف وہی شخص اس قصہ کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرسکتا ہے جو بالکل جاہل ہواور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر ایسے الزامات لگانا چاہتا ہو جو کہ آپ کی شان کے لائق نہیں ۔ آپ کی شان میں ایسے کلمات کہے جو آپ کی عزت وعظمت کے منافی ہوں ۔ بشرط صحت یہ بات چنداں مفید نہیں ۔ اس لیے کہ جنازہ پڑھنے سے میت کو فائدہ ہی پہنچتا ہے کسی ضرر کا اندیشہ نہیں ۔ نیز یہ کہ اگر ایک کم درجہ کا شخص افضل الخلق کا جنازہ پڑھے تو اسے کچھ نقصان نہیں پہنچتا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی لیجیے کہ سب ابرار و اشرار اور منافقین آپ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔ بفرض محال اگر اس سے آپ کو نفع نہیں پہنچتا تو ضرر بھی لاحق نہیں ہوتا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ آپ کی امت میں منافقین بھی ہیں ۔ اس کے باوصف آپ نے کسی کو بھی درود وسلام سے نہ روکا، بلکہ مومن و منافق سب کو درود و سلام کا حکم دیا۔
مذکورۃ الصدرحقائق اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ قبل ازیں ذکر کردہ واقعہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش پر دلالت نہیں کرتا اور اس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت پر وہی شخص استناد کرتا ہے جو جاہل مطلق ہو۔ مزید برآں یہ مسئلہ اپنی جگہ پر ثابت ہے کہ اگر کوئی شخص وصیت کرے کہ مسلمان اس کا جنازہ نہ پڑھیں تو اس کی وصیت نافذ نہیں کی جائے گی اس لیے کہ نماز جنازہ اُس کے لیے ہرحال میں مفید ہے۔ [1]
[1] تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے آنے کی اطلاع دی ، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ہمارے گھر تشریف لائے ، اس وقت ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے ، میں نے چاہا کہ کھڑا ہو جاں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی لیٹے رہو ، اس کے بعد آپ ہم دونوں کے درمیان بیٹھ گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی ، ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھ سے جو طلب کیا ہے کیا میں تمہیں اس سے اچھی بات نہ بتاں ، جب تم سونے کے لیے بستر پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر ، تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور تینتیس مرتبہ الحمدللہ پڑھ لیا کرو ، یہ عمل تمہارے لیے کسی خادم سے بہتر ہے۔‘‘ح: ۳۷۰۷۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ نے الاستیعاب میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی اس وصیت کا ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا اورحضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کو غسل دیں ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی ہی نے آپ کے لیے نعش کا انتخاب کیا تھا جیسا کہ وہ ملک حبشہ میں بچشم خود ملاحظہ کر چکی تھیں ۔ دیکھئے حلیۃ الاولیاء، ابونعیم:۲؍۴۲، نیز السنن الکبریٰ امام بیہقی :۴؍۳۴، نیز ۳؍۹۶۔