کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 411
عہد نبوت میں جب ابو سنابل بن بعکک نے یہی فتوی دیا، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو سنابل جھوٹ کہتا ہے۔[1] اس کے نظائر و امثال بہت ہیں ۔بہر کیف صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کیا جا سکتا تھا۔جیسا کہ وہ خود اپنے حق میں فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔ ساتویں وجہ :....شیعہ مضمون نگارنے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جو واقعہ ذکر کیا ہے وہ ان کے شایان شان نہیں ۔اس سے کوئی جاہل ترین انسان ہی حجت پکڑ سکتا ہے۔ شیعہ مصنف اس زعم باطل میں مبتلا ہے کہ اس سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مدح و ستائش ہو رہی ہے، حالانکہ یہی واقعہ ان کے حق میں تنقیص شان کا موجب ہے ۔ بشرط صحت اس واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے حق میں فیصلہ صادر نہ کیا تو آپ کس لیے ناراض ہو گئیں ....؟ اس لیے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ حق و صداقت پر مبنی تھا، جس کی خلاف ورزی کسی کے لیے بھی درست نہیں ، لہٰذا اس میں ناراض ہونے کی کوئی بات نہ تھی۔ جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف اس کے حق میں فیصلہ صادر کیا جائے اور جب حاکم ایسا نہ کر سکے تو وہ اس سے ناراض ہو جائے اور بات چیت ترک کرنے کی قسم کھالے تو یہ بات اس شخص کے لئے نہ موجب مدح ہے اور نہ حاکم کے حق میں سبب جرح و قدح۔ بخلاف ازیں یہ بات ایسا تقاضا کرنے والے کے لیے جرح و قدح سے قریب تر ہے۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا و دیگر صحابہ سے اس قسم کے جو واقعات منقول ہیں ان میں سے اکثر صریح کذب اور بعض تاویل پر مبنی ہیں ۔ اور اگر ان میں سے بعض گناہ کے موجب بھی ہوں تو ہمیں کب اس سے انکار ہے، کیونکہ ہم صحابہ کو معصوم نہیں مانتے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ صحابہ اولیاء اللہ اور اہل جنت میں سے ہونے کے باوصف گناہوں سے بری نہ تھے۔ ہم پر امید ہیں کہ اﷲتعالیٰ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا۔ رافضی مصنف نے جو ذکر کیا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کرنے کی قسم کھا لی اور کہا کہ اپنے والد محترم (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے مل کر اس کا شکوہ کریں گی؛ یہ بات شان فاطمہ رضی اللہ عنہا کے منافی ہے۔ شکوہ صرف بارگاہ ربانی میں کیا جا سکتا ہے اور بس!قرآن میں ارشاد ہوتا ہے اللہ کے ایک نبی نے کہا تھا: ﴿ اِنَّمَا اَشْکُوْ بَثِّیْ وَحُزْنِی اِلَیْ اللّٰہِ ﴾ (یوسف:۷۶) ’’میں بارگاہ ایزدی میں اپنے حزن و ملال کا شکوہ کرتا ہوں ۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام دعا فرمایا کرتے تھے: ’’بارالٰہی ! مدح و ستائش صرف تیرے لیے ہے، تیرے حضور ہی میں شکایت کی جاتی ہے تجھی سے مدد چاہی جاتی ہے اور تجھی سے فریادرسی کی جاتی ہے، ہمارا تکیہ صرف تیری ہی ذات پر ہے۔‘‘
[1] صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب فضل من شھد بدراً(ح:۳۹۹۱) صحیح مسلم۔ کتاب الطلاق ، باب انقضاء عدۃ المتوفی عنھا زوجھا، (ح:۱۴۸۴) مسند احمد(۱؍۴۴۷)۔