کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 410
کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ نے فرمایا:’’ اس (آپ کے داماد ابوالعاص) نے جب بات کی تو سچ بولا اور جب وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔‘‘[1]
ایک مرتبہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر دستک دے کر دریافت فرمایا:
’’ کیا تم نماز (تہجد) نہیں پڑھتے۔‘‘؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہماری جانیں اﷲ کے قبضہ میں ہیں جب چاہتا ہے جگا دیتا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر افسوس کے عالم میں اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے چل دئیے، زبان مبارک پر بے ساختہ یہ الفاظ جاری تھے:
﴿ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا ﴾ [الکہف۵۳]
’’انسان جھگڑا کرنے میں سب چیزوں سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘[2]
جہاں تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ کا تعلق ہے، آپ نے فتوی دیا تھا کہ جب کسی عورت کا خاوند فوت ہوجائے اور وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت ’’اَبْعَدُ الَاجَلَیْنِ‘‘ (عدت وفات اور وضع حمل ہر دومیں سے جو بعید تر ہو) ہے،
[1] صحابہ نے تعمیل ارشاد کر دی۔ بعد ازاں حضرت زینب نے ابو العاص سے ہجرت کی اجازت طلب کی جو اس نے دے دی، ابوالعاص ایک تجارتی قافلہ کو لے کر ملک شام گئے، ساحل سمندر پر مسلمانوں کی ایک جماعت آباد تھی جس میں ابو جندل اور ابو بصیر بھی شامل تھے۔ انہوں نے آگے بڑھ کر ابو العاص کو قید کر لیا اور مدینہ پہنچادیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: زینب نے ابوالعاص کو مال و متاع سمیت پناہ دی ہے۔قید کرنے والوں نے ابوالعاص کو اسلام لانے کی ترغیب دلائی اور ابو العاص کو مخاطب کر کے کہا ’’ ابوالعاص! آپ اشراف قریش میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ آپ رسول اﷲ کے چچا زاد اور داماد بھی ہیں اگر آپ مشرف باسلام ہوجائیں تو اہل مکہ کا سب مال آپ کو غنیمت میں مل جائے گا۔ابوالعاص نے جواباً کہا ’’ تم نے یہ بہت بری بات کہی ہے، کہ میں مکر و فریب کے ساتھ اپنے مذہب کو چھوڑوں ۔‘‘ جب آپ نے ابوالعاص کو رہا کیا تو پہلے مکہ گئے اور حق داروں کی ایک ایک پائی ادا کی، پھر کھڑے ہوکر اہل مکہ کو مخاطب کر کے کہا ’’ مکہ والو! بتائیے کیا میں نے واجب الاداء حقوق ادا کیے یا نہیں ۔‘‘؟ انہوں نے کہا ’ اﷲ کی قسم!ضرور۔‘‘ تب ابوالعاص نے کلمہ شہادت پڑھا اور عازم مدینہ ہوئے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کو ابوالعاص کے یہاں بھیج دیا، اور نکاح جدید کی ضرورت نہ سمجھی۔ (مستدرک حاکم (۳؍۲۳۶۔ ۲۳۷) سیرۃ ابن ہشام (ص:۳۱۲،۳۱۴) سنن ابی داؤد۔باب الی متی ترد علیہ امراتہ (ح۲۲۴۰) بذکر النکاح فقط۔ابوالعاص اموی اور ان کے اشباہ و امثال جن بلند اخلاق اور اوصاف کے حامل تھے، ان کا ذکر و بیان یہاں ممکن نہیں ۔
ظہور اسلام سے قبل وہ جس طرح عرب بھر میں ممتاز تھے، اسلام لانے کے بعد تاریخ اسلام میں بھی انہیں بلند مقام حاصل ہوا۔ عربوں کے اخلاق جلیلہ اور ان کی بلند پایہ عربی فطرت ہی ہے جس کی بنا پر اﷲ تعالیٰ نے اس عظیم قوم کو اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے منتخب فرمایا۔
صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی ا للّٰہ علیہ وسلم ۔ باب ذکر اصھار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (ح: ۳۷۲۹ ،۵۲۳۰)۔ صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہ ، (ح:۲۴۴۹ ) اس کے سیاق و سباق میں اختلاف ہے۔
[2] البخاری، کتاب التہجد۔ باب تحریض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی قیام اللیل ، (ح: ۱۱۲۷) صحیح مسلم ۔ کتاب صلاۃ المسافرین۔ باب الحث علی صلاۃ اللیل و ان قلت۔(حدیث:۷۷۵)۔