کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 41
پھر رب تعالیٰ نے یہ فرما کر قدر کو ثابت کیا ہے:
﴿فَلَوْشَآئَ لَہَدٰیکُمْ اَجْمَعِیْنَo﴾ (الانعام: ۱۳۹)
’’سو اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ضرور ہدایت دے دیتا۔‘‘
رب تعالیٰ نے حجت شرعیہ کو ثابت کیا اور مشیئت قدریہ کو بیان کیا، اور یہ دونوں حق ہیں ، ارشادربانی ہے:
﴿وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ نَّحْنُ وَ لَآ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْئٍ کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَہَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ﴾ (النحل: ۳۵)
’’اور جن لوگوں نے شریک بنائے انھوں نے کہا اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اس کے سوا کسی بھی چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اس کے بغیر کسی بھی چیز کو حرام ٹھہراتے۔ اسی طرح ان لوگوں نے کیا جو ان سے پہلے تھے تو رسولوں کے ذمے صاف پیغام پہنچا دینے کے سوا اور کیا ہے؟‘‘
رب تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ یہ کلام دراصل پیغمبروں کی لائی تعلیمات کی تکذیب ہے۔ جو ان کے حق میں کوئی دلیل نہیں ، اور اگر یہ کلام محبت ہوتا تو ہر سچے کو جھٹلانے اور ہر ظلم کو سراہنے کی قوی دلیل ہوتا۔ بنی آدم کی فطرت میں یہ بات ہے کہ یہ کلام صحیح دلیل نہیں ۔ بلکہ اسے وہ دلیل بناتا ہے جو علم سے تہی دامن اور ظن کا پیروکار ہو۔ جیسے ان لوگوں نے کیا جنہوں نے پیغمبروں کو جھٹلایا۔ بلکہ اللہ نے رسولوں کو بھیج کر اور کتابیں اتار کر حجت تمام کر دی ہے۔ جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’اللہ سے بڑھ کر کسی کو یہ محبوب نہیں کہ اس کے حضور عذر پیش کیا جائے۔ (یعنی اللہ کو بندہ کی اس کی جناب میں عذر خود ہی بے حد محبوب ہے) اور اسی لیے اس نے اپنی تعریف بیان کی ہے، اور اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت والا نہیں ۔ اسی وجہ سے اس نے بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ ظاہری بے حیائیوں کو بھی اور باطنی بے حیائیوں کو بھی۔‘‘ [1]
رب تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اسے یہ بات محبوب ہے کہ اس کی مدح بیان کی جائے۔ اس کے حضور عذر و معذرت کی جائے، اور اس نے بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے، اور اسے عدل و احسان پر مدح کیا جانا پسند ہے، اور یہ کہ اس کی ظلم کے ساتھ تعریف نہ بیان کی جائے۔
یہ بات معلوم ہے کہ اس نے امر و نہی کو بیان کر دیا۔ پھر جو ان کو بجا لایا تو اس نے ان کی پریشانیوں اور تکلیفوں کو دور کر دیا۔ لیکن پھر جنہوں نے اس کے امر و نہی کی حد سے تجاوز کیا اس نے انہیں عذاب دیا اور ان سے انتقام لیا۔ پھر جب
[1] صحیح البخاری: ۶؍ ۵۷۔ کتاب التفسیر سورۃ الانعام: باب: ﴿ولا تقربوا الفواحش﴾ عن عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مع اختلاف الالفاظ۔