کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 409
حالانکہ حق صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ گردش کرتا ہے اور دوسرا کوئی انسان اس خصوصیت کا حامل نہیں ۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ میں یہ وصف تسلیم کیا جائے تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح معصوم ہونا لازم آتا ہے۔ شیعہ جہالت کی بنا پر عصمت علی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ کرتے ہیں ۔جو شخص اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ علی،ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کی نسبت معصوم تر نہ تھے؛بلکہ یوں کہیے کہ ان میں سے کوئی بھی معصوم نہیں ۔ اورلوگ شیعہ کی دروغ گوئی سے بخوبی واقف ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مسائل و فتاویٰ بالکل اسی طرح ہیں جس طرح ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ۔ ایسا ہر گز نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ خلفاء ثلاثہ کے فتاویٰ کی نسبت اولیٰ بالصواب ہوں ۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ خلفاء ثلاثہ کے اقوال حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشادات کی نسبت ضعیف و مرجوح ہیں ۔یہ بھی درست نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیگر خلفاء کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ خوش اور ان کے زیادہ ثنا خواں تھے۔ بخلاف ازیں اگر کوئی شخص کہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو متعدد مرتبہ زجر و عتاب فرمایا تو اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں ہوگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ نبوی میں یہ شکوہ پہنچایا اور کہا: ’’ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنی بیٹیوں کی حمایت نہیں فرماتے۔‘‘ تو آپ مسجد نبوی میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اورفرمایا:
’’بنی ہشام بن مغیرہ نے مجھ سے اپنی بیٹی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دینے کی اجازت طلب کی ہے۔واضح رہے کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا،میں اس کی اجازت نہیں دیتا،[ آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ دہرائے]۔ البتہ علی رضی اللہ عنہ اگر میری بیٹی کو طلاق دے دیں تو ان کی بیٹی کے ساتھ نکاح کر سکتے ہیں ۔ فاطمہ! میرا جگر پارہ ہے جو اس کو شک میں ڈالتا ہے، وہ مجھے شک میں مبتلا کرتا ہے اور جو چیز اس کو ایذا دیتی ہے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔ پھر آپ نے اپنے ایک داماد [1]کا ذکر کیا جو بنی عبد شمس
[1] ان کا نام ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزی بن عبد شمس بن عبد مناف ہے، یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے پہلے داماد اور آپ کی سب سے بڑی دختر فرخندہ اخترحضرت زینب رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے، ان کی بیٹی کا نام امامہ تھا جن کو حالت نماز میں آپ کندھے پر اٹھا لیا کرتے تھے، جب سجدہ کو جاتے تو زمین پر رکھ دیتے اور جب کھڑے ہوتے اٹھا لیا کرتے تھے،(صحیح بخاری۔ کتاب الصلاۃ ، باب اذا حمل جاریۃ صغیرۃ علی عنقہ فی الصلاۃ (ح:۵۱۶)،صحیح مسلم۔ کتاب المساجد، باب جواز حمل الصبیان فی الصلاۃ(حدیث:۵۴۳) یہ وہی امامہ بنت ابوالعاص ہیں کہ جب ان کی خالہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا توحضرت علی نے ان سے نکاح کر لیا تھا۔ ابوالعاص متاخر الاسلام ہیں ۔ غزوۂ بدر میں یہ قریش کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑنے کے لیے گئے تھے، اور قید کر لئے گئے، جب اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے فدیہ بھیجا توحضرت زینب نے وہ ہار مدینہ روانہ فرمایا جو رخصتی کے وقت ان کی والدہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کو پہنایا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہار پہچان لیا اور آبدیدہ ہو کر فرمایا: ’’ اگر تم مصلحت دیکھو تو زینب کے قیدی کو رہا کر دو اور ہار اسے واپس دے دو۔‘‘ (سنن ابی داؤد۔ باب فی فداء الاسیر بالمال، (ح:۲۶۹۲) (