کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 408
لیکن اس روایت کا اعتبار ہی کیا ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سراسر بہتان اورجھوٹ ہے ۔ بخلاف اس روایت کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : ’’ام ایمن جنتی عورتوں میں سے ہے ۔‘‘ ایسا کہنا ممکن ہے ۔ اس لیے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا نیک عورت تھیں ‘ آپ مہاجرات صحابیات میں سے تھیں ؛ آپ کو جنت کی بشارت دیے جانے میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔بخلاف اس کے کہ کسی ایک انسان کے متعلق کہا جائے کہ : ’’حق اسی کیساتھ ہوگا وہ جہاں کہیں بھی ہوگا اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ایسے کلام سے منزہ ومبراء ہے۔
[مذکورۃ الصدرحدیث درج ذیل وجوہ و اسباب کی بنا پر معنوی اعتبار سے بھی ناقابل قبول ہے]:
اوّل :....حوض نبوی پر اشخاص وارد ہوں گے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا تھا:
’’ تم صبر کرو یہاں تک کہ حوض پر مجھ سے آملو۔‘‘[1]
اور دوسری روایت میں ہے :
’’ بیشک میرا حوض ایلہ سے لیکر عدن تک بڑا ہوگا۔ اور اس حوض پر آنے والے سب سے پہلے لوگ فقراء مہاجرین ہوں گے ۔ پراگندہ سروں والے؛ میلے کپڑوں والے ‘ جو مال دار عورتوں سے شادی نہیں کرسکتے ‘ اور جن کے لیے بند دروازے نہیں کھولے جاتے ۔ان میں سے کسی ایک کی موت آتی ہے تو اس کی خواہش اس کے سینے میں ہوتی ہے۔ اس کی خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔‘‘[2]
جب کہ حق کوئی مجسم چیزیا اشخاص میں سے نہیں جو حوض پر وارد ہونے کے قابل ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
’’ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ؛ وہ کتاب اللہ اور میرے اہل بیت کی عترت ؛یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘[3]
وہ حدیث [حضرت علی رضی اللہ عنہ والی] بھی اسی باب سے ہے ۔اس میں کچھ کلام بھی ہے جو کہ اپنے موقع پر ذکر کیاجائے گا۔
اگر اس کو صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو اس سے مراد قرآن کاثواب ہوگا۔ رہا یہ مسئلہ کہ حق ایک شخص کیساتھ گھومتا ہو ‘ اور وہ شخص حق کے ساتھ گھومتا ہو ؛ وہ اس شخص کی صفت [لازمہ ] ہو کہ اس سے آگے تجاوز نہ کرسکتا ہو۔ تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس کا قول سچا ہوگا؛ عمل نیک اور صالح ہوگا ؛ اس سے یہ مراد ہر گزنہیں ہوسکتی کہ اس کے علاوہ کسی غیر کے پاس حق میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔
[1] البخاری ۵؍۳۳ کتاب مناقب الانصار؛ باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم للأنصار: ’’اصبروا حتی....۔‘‘و مسلم ۳؍ ۱۴۷۴ ؛ کتاب الإمارۃ ؛ باب الأمر بالصبر عند ظلم الولاۃ‘‘۔
[2] رواہ مسلم ۴؍۱۹۰۲؛کتاب الفضائل ؛ باب اثبات حوض نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم و صفاتہ؛ البخاری ۳؍۱۹۰]۔سنن الترمذي ۴؍ ۴۷ ؛ کتاب صفۃ القیامۃ ؛ باب ما جاء في صفۃ أواني الحوض ۔
[3] سنن الترمذي ۵؍۳۲۸ ؛ کتاب المناقب ؛ باب مناقب أہل بیت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ حسن غریب۔