کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 407
کی شہادت دی ہے، اہل سنن نے متعدد طرق سے بروایت عبدالرحمن بن عوف، سعید بن زید نقل کی ہے۔[1]یہ روایات محدثین کے نزدیک عام طور سے معروف ہیں ۔
پھر جن احادیث میں صحابہ کے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، شیعہ ان کی تکذیب کرتے ہیں اور صحابہ پر یہ کہہ کر معترض ہوتے ہیں کہ وہ اس حدیث کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس لیے کہ انہوں نے ایک عورت کی گواہی قبول نہیں کی ؛ جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ اسے جنتی ہونے کی بشارت دی گئی ہے، کیا اس سے بڑا جہل و عناد اور بھی ہوسکتا ہے؟
علاوہ ازیں یہ ضروری نہیں کہ جو شخص جنتی ہو وہ مقبول الشہادۃ بھی ہو۔اس لیے کہ اس امر کا احتمال موجود ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کا ارتکاب کررہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر حضرت خدیجہ، فاطمہ و عائشہ رضی اللہ عنہم جیسی جنتی عورتیں شہادت دیں تو قرآن کے حکم کے مطابق ان کی شہادت کو مرد کی شہادت کے مقابلہ میں نصف شہادت قرار دیا جائے گا۔ جس طرح ان میں سے کسی ایک کا میراث میں حصہ مرد کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔ اور اس کی دیت بھی مرد سے آدھی ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف مذکور نہیں ،تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔پس کسی عورت کے جنتی ہونے سے اس کا مقبول الشہادۃ ہونا لازم نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ شہادت دینے میں غلطی کر رہی ہو۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک جھوٹا شخص دروغ گوئی سے تائب ہو کر جنت میں جا سکے۔
پانچویں وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لیے قبول نہ کی کہ وہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے خاوند تھے۔‘‘ یہ صریح کذب ہے ، اگر اس کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے تو بھی ہمارے حق میں مضر نہیں ۔ اس لیے کہ بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت اکثر علماء کے نزدیک ناقابل قبول ہے۔ جو علماء اس کی قبولیت کے قائل ہیں وہ اس شرط کے ساتھ قبول کرتے ہیں کہ شہادت کا نصاب پورا ہوجائے، مثلاً خاوند کے ساتھ ایک مرد گواہ اور بھی ہو یا دو عورتیں ہوں ، ایک آدمی اور ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر کرنا جب کہ مدعی سے حلف بھی نہ لیں ؛ ناروا ہے۔
چھٹی وجہ :....شیعہ مصنف کی پیش کردہ روایت کہ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور حق آپ کے ساتھ لگا لپٹا ر ہے گا؛ اور یہ اس وقت تک جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوجائیں ۔‘‘اور پھر یہ کہنا کہ یہ روایت سب علماء نے بیان کی ہے۔یہ کذب و جہالت کی انتہا ہے۔ یہ روایت بسند صحیح یا ضعیف کسی نے بھی نقل نہیں کی۔ پھر یہ کہنا کس حد تک صحیح ہے کہ ’’ یہ روایت سب محدثین نے بیان کی ہے۔ ‘‘ اس شخص سے زیادہ جھوٹا اور کون ہو سکتا ہے، جو کسی روایت سے متعلق کہے کہ سب صحابہ و علماء نے یہ روایت بیان کی ہے، حالانکہ وہ حدیث اصلاً کسی ایک سے بھی منقول نہ ہو؛ یہ کھلا ہوا کذب و افترا ہے۔
البتہ اگر یوں کہا جاتا کہ بعض علماء نے یہ روایت بیان کی ہے تو یہ بات کسی حد تک دائرہ امکان کے اندر ہوسکتی تھی ۔
[1] سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی الخلفاء( ح:۴۶۴۹،۴۶۵۰) و سنن ترمذی کتاب المناقب۔ باب مناقب سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۵۷) عن سعید بن زید رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۴۷) عن عبد الرحمن بن عوف رضی اللّٰہ عنہ ۔