کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد4،3) - صفحہ 405
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نہیں ‘ایسی کوئی بات نہیں ؛ صرف اتنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’ اے آل محمد ! تمہیں خوشخبری ہو؛ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تونگری لے آئے ہیں ۔‘‘
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ‘ اور آپ بھی سچ کہتی ہیں ۔ آپ کے لیے مال فئے ہے۔ اور میرے علم کے مطابق اس آیت کی تاویل کی روشنی میں یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ پورے کا پورا حصہ آپ لوگوں کو دیدیا جائے ۔ لیکن آپ کے لیے آپ کی ضرورت کے مطابق مال فئے ہے ۔‘‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بات سنتے اور مانتے تھے۔ تو پھر جب آپ کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت گواہ بھی موجود ہوں تو آپ کی بات کیسے رد کی جاسکتی تھی؟
تیسری وجہ :....اگر اس مفروضہ کی صحت تسلیم کر لی جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ بھی تقسیم کیا جاتا؛ تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دعویٰ کے مطابق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہم اور آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ [اس وراثت میں ]آپ کے شریک ہوتے۔ اور ظاہر ہے کہ ان کے خلاف صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔اوراگر آپ کاورثہ ناقابل تقسیم تھا تو اس معاملہ میں فریق حریف تمام مسلمان ہیں ؛ ان کے خلاف بھی صرف ایک عورت یا صرف ایک مرد اور ایک عورت کی شہادت جمہور مسلمین کہ نزدیک قابل قبول نہیں ۔ البتہ ایسے واقعات میں فقہاء حجاز اور محدثین کے نزدیک مدعی کے حق میں ایک گواہ کیساتھ اس کی حلف کو شامل کر کے فیصلہ صادر کیا جا سکتا ہے۔
بیوی کے حق میں خاوند کی شہادت کے بارے میں علماء کے دو مشہور اقوال ہیں ، امام احمد سے بھی اس ضمن میں دو روایتیں منقول ہیں :
۱۔ پہلی روایت : مقبول نہیں ، امام ابو حنیفہ، مالک، لیث بن سعد، اوزاعی، اسحاق رحمہم اللہ اور دیگر ائمہ کا مذہب بھی یہی ہے۔
۲۔ امام احمد کا دوسرا قول: خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہے، امام شافعی ، ابو ثور اور ابن المنذر کی بھی یہی رائے ہے۔
بنا بریں اگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے اس واقعہ کی صحت کو تسلیم بھی کیا جائے، تو حاکم وقت ایک مرد یا ایک عورت کی شہادت کی بنا پر فیصلہ صادر نہیں کر سکتا، خصوصاً جب کہ اکثر علماء کے نزدیک خاوند کی شہادت بیوی کے حق میں مقبول ہی نہیں ۔اور پھر علماء کرام کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو صرف ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ۔اور جو کوئی ایک گواہ اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرنے کا کہتے ہیں : تووہ بھی طالب دعوی کے لیے اس وقت تک فیصلہ کرنے کا نہیں کہتے جب تک اس سے پختہ حلف نہ لے لیا جائے ۔
چوتھی وجہ :....شیعہ مصنف کا یہ قول کہ : پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو لے کر آئیں ؛ اور